Hamari Redline
ہماری ریڈ لائن
پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے۔ جو بیک وقت خوش قسمت بھی ہے اور بد قسمت بھی۔ سرحدی اور جغرافیائی لحاظ سے یہ ایک بہترین اور خوبصورت خطہ ہے۔ ہر طرح کے موسم قدرتی وسائل سے مالامال، افرادی قوت کا خزانہ، غرض کسی شے کی کمی نہیں۔ مگر اس ارض پاک کی بدقسمتی دیکھیں، اپنی پیدائش سے لے کر اب تک یہ کسی آسیبی سائے میں چھپا ہوا ہے۔ یہ سائے ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ کبھی دہشت گردی کی صورت میں، کبھی اقتدار کی ہوس میں، کبھی عدالتی نظام کی زبوں حالی کی شکل میں۔
بعض اوقات ان سائوں کی مضبوطی امید کی ایک کرن بھی عوام تک پہنچنے نہیں دیتی اور مایوسی کے عالم میں ہم سوچتے ہیں کہ اغیار ترقی کر گئے، کامیاب بھی ہو گئے اور ہم سب وسائل ہونے کے باوجود پیچھے رہ گئے۔ یہ گلے شکوے کرتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم سب کا جرم بڑا سنگین ہے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ سے کیے گئے عہد الست کی نا فرمانی کی۔
یہ عہد آدم کی کل اولاد نے لیا تھا۔ مگر اللہ نے اپنے جن بندوں کو اپنی کتاب، اپنا محبوب نبی ﷺ اور اپنا پسندیدہ دین عطا کیا۔ دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ حساب کتاب بھی انہی سے ہوگا۔
ہم نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ ہمیں پاکستان عطا کر دے۔ ہم صرف ایک رب تعالیٰ کی عبادت کریں۔ مگر ہوا یوں کہ پاکستان مل تو گیا۔ مگر ہم سب نے اپنے چھوٹے چھوٹے خدا بنا لیے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بجائے ان دنیاوی جھوٹے خداؤں پر آس لگا لی۔
سیاستدانوں نے گنگ میکر کسی اور کو سمجھ لیا، میڈیا ریٹنگ کے چکر میں حقائق مسخ کرنے لگا۔ امراء مزید کی چاہت میں ہوس کاشکار ہو گئے۔ منصف کا انصاف اشرافیہ کے لیے رہ گیا، علمائے اکرام اپنے علم پر تکبر کا شکار ہو گئے اور آسیب سب کی نظر دھندلاتا چلا گیا۔ اس دھندلاہٹ نے عوام کے دماغوں پربھی اثر کیا اور ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہونا شروع ہوگئی۔ عام عوام نے اللہ تعالیٰ کے احکامات اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات بھولنا شروع کر دیں۔
اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر ظلم کی ابتداء ہوگئی۔ ہر کوئی منصف بن گیا اور عدالتیں گلی محلوں میں لگنا شروع ہوگئیں۔ کسی کو جلا دیا گیا۔ کسی بے زبان کے اعضاء کاٹ دئیے گئے۔ جنتی اور جہنمی کے فیصلے وہ کرنے لگے۔ جن کا دین صرف بدنی عبادت تک محدود تھا۔ ہم عوام کا حال یہ ہوگیا کہ گدھ کی طرح دوسروں کو نوچنے لگ گئے۔ انھیں زندہ جلانے لگ گئے اور لاشوں پر قہقہے لگانے لگ گئے۔
جس ملک کو دعائیں مانگ کر اللہ تعالیٰ سے مانگا تھا۔ اس ملک کو اپنے ہاتھوں تباہ کرنے لگے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کی دراز رسی کیوں نا کھچے۔ پھر ہماری کمائی، ہماری اشیاء خوردونوش کی برکت کیوں نا ختم ہو۔ ہم نے رازق جھوٹے زمینی خداؤں کو سمجھا اور آسمانی رب نے ہمیں انہی کے سپرد کر دیا۔
پھر ہم ان زمینی خداؤں سے گلہ کیوں کریں؟ کیوں ان سے انصاف کی توقع رکھیں۔ انسان کو وہی کچھ ملا جو اس کی چاہت تھی۔ عوام نے اپنی چاہت ان لوگوں کو بنایا جو ساری زندگی اقتدار کی ہوس میں مبتلا رہے۔ سیاست، کھینچا تانی، میرا جج، میری بیوروکریسی، میرے صحافی کرتے کرتے آخر میں سفید ہاتھ سے سلا کفن پہن کر مٹی کی قبر میں جا لیٹے۔
کیسا گھاٹے کا سودا کرتے ہیں ہم۔ قرآن اسی لیے تو انسان کے خسارے میں ہونے کا بتاتا ہے۔
وقت ریت کی طرح ہاتھ سے پھسلتا جا رہا ہے۔ ہمیں روٹھے رب کو بھی منانا ہے اور اپنی نسلوں کی تربیت بھی کرنی ہے۔ فتنوں کے ہاتھوں میں اپنی نسلوں کو کھیلنے سے بچانا ہے۔ فائدہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ دے سکتی ہے اور نقصان ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔
پاکستان اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا فائدہ اور ایک نعمت ہے، اس کی قدر کریں۔ اس کے لیے ایسے ہی دعائیں کریں جیسے اس کے قیام کے وقت کی تھیں۔ یہ ہماری نسلوں کا گھر ہے۔ کہیں اللہ تعالیٰ ہم سے نعمت کی بے قدری پر ناراض نا ہو جائیں۔ یاد رکھیں اس دنیا میں تا قیامت ہماری ریڈ لائن ہمارا پیارا ملک پاکستان ہے۔