Hamari Pyari Maryam Nawaz Sharif
ہماری پیاری مریم نواز شریف
آج کی تحریر ڈرتے ڈرتے، جان بخشی کی درخواست کرتے ہوئے، لکھی گئی ہے۔ کیا کریں ہماری پیاری سی ایم پنجاب مریم نواز شریف کے کچھ پیڈ جانثار ایسے ہیں۔ جو ان پر تنقید کرنے والوں کو تہہ وبالا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پورے پنجاب کے حالات سے تو اتنی زیادہ آگہی نہیں، مگر لاہور کی اگر آپ محاورتاً اینٹ بھی دیوار سے کھینچیں گے، تو نیچے سے مریم نواز شریف کی خوبصورت تصویر بمع ایک متوقع پروجیکٹ کے نکل آئے گی۔ کوئی شک نہیں مریم نواز شریف نے سو دنوں میں جتنا کام کیا ہے۔ وہ کسی اور صوبے کے سی ایم کو کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ علی امین گنڈاپور اب تک بڑھکیں مارنے اور وفاقی حکومت کو دھمکیاں دینے میں مصروف ہیں۔ ان کا دل ودماغ عمران خان کو سلاخوں کے پیچھے رکھنے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ لیکن زبان بار بار اڈیالہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دیتی ہے۔ مراد علی شاہ کے مستقل سی ایم سندھ کے رہنے کا راز ہی کام نا کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی دن رات زیادہ سے زیادہ حصے سمیٹنے کی پریشانی میں مبتلا ہے۔
ایسے میں گلاس کا آدھا بھرا ہوا پانی ہی غنیمت ہے۔ اگرچے اس پانی سے عوام کی پیاس تو پوری طرح نہیں بجھے گی۔ مگر خشک حلق ضرور تر ہو جائیں گے۔ مگر ہم عام عوام پر ظلم یہ ہے کہ ہمیں کہا جارہا ہے کہ آدھے پانی کے گلاس کو پورا بھرا ہوا کہو اور پھر مبارکباد بھی دو۔ ورنہ ہم یہی سمجھیں گے کہ تم سب مریم نواز شریف کی خوبصورتی سے جلتے ہو۔ اسی لیے ہر وقت ان پر تنقید کرتے ہو۔ شکر نہیں کرتے اتنی خوبصورت، دلنشیں مریم نواز شریف تم لوگوں کی سستی روٹی کی فکر کرتی ہے، سڑکوں کی صفائی کرواتی ہے۔ ہسپتالوں کے سنگ بنیاد رکھتی ہے۔
ہم عوام کے لیے خوش ہونے کو شاید یہ باتیں کافی ہوتیں۔ مگر کیا کریں۔ بجلی کے بل جان نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی سکولز میں فری دودھ کی خوشی منا رہے ہوتے ہیں کہ دودھ پہنچ سے باہر ہو جاتا ہے۔ مجھے نہیں پتا مریم نواز شریف کے مشیر کون ہیں۔ جو انھیں مشورہ دیتے ہیں کہ اسکولز میں اربوں روپے مفت دودھ پر لگائیں اور ڈبے کے دودھ مہنگے کر دیں۔ ابھی پتا چلتا ہے کہ ڈبل روٹی، چکن سبزیاں سستی ہوئیں۔ پورا سوشل میڈیا مبارکبادوں سے بھر جاتا ہے۔ اگلے مہینے بلکہ اگلے ہفتے میں ریٹ پرانا، یا اس سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
پنجاب کابینہ کے انمول رتن صبح آنکھ کھلتے ساتھ ہی مریم نواز شریف زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔ سارا دن ان کی تعریفیں کرتے ہیں۔ مخالفین کے منہ توڑتے ہیں اور رات کو پھر نعرہ لگا کر نیند کی وادیوں کھو جاتے ہیں۔
مریم نواز شریف پاکستان کی پہلی وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ وہ یہ کام کر چکیں۔ اب اگر انھوں نے دوبارہ اس اقتدار کو پانا ہے تو عام عوام کے لیے ڈسپوزیبل پروجیکٹ کی بجائے، پائیدار پروجیکٹ بنانا ہوں گے۔
پنجاب خصوصا لاہور شہباز شریف کا عادی ہے۔ جو کہے بغیر منصوبہ بنا کر عوام تک پہنچا دیتے تھے۔ شہباز شریف نے لاہور میں اتنے ٹرانسپورٹ کے منصوبے چلا دئے ہیں کہ مزید کی ضرورت نہیں۔ مریم نواز شریف لائیو اسٹاک پر توجہ دیں۔ تا کہ دودھ اور گوشت سستا ہو سکے۔ گھر گھر دوائیاں پہنچانے کی بجائے، شہباز شریف کے دور کی طرح مفت صاف پانی کے پلانٹ گلی محلوں میں لگوا دیں۔ شاہراوں کی بجائے گلی محلوں کی صفائی پر توجہ دیں۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کو ہی مزید فعال کر دیں۔ تا کہ ہم خرید کر زہر کھانے سے بچ جائیں۔
عمران خان کے دور اقتدار میں جب ان ہر کوئی تنقید کرتا تھا تو وہ اس ناقد کو عبرت کی مثال بنا دیتے تھے۔ جان بوجھ کر دوبارہ وہی کام کرتے تھے۔ قہقہے لگاتے تھے۔ آج اڈیالہ میں ان کی پر تعیش رہائش دوسروں کے لیے نصیحت ہے۔ یہ نا ہو کہ لیول پلے گیم، برابری کی سطح پر ختم ہو جائے اور پھر گھمسان کا رن پڑے۔
ہر صورت نقصان صرف عام عوام کا ہی ہوگا۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کو نیا آقا مل جائے گا۔
میں تو صرف یہ کہنے کی جرات کرنا چاہتی ہوں کہ، سیاست دان عام عوام کی اتنی ہی نفرت سمیٹیں کہ کل کو الیکشنز میں اسے برداشت کر سکیں۔