Sunday, 08 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Halal Magar Na-Pasandeeda Amal

Halal Magar Na-Pasandeeda Amal

حلال مگر ناپسندیدہ عمل‎

نکاحِ دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ جو اللہ کی رضا سے دنیا میں دو افراد کے بیچ بنتا ہے۔ دو انجان لوگ صرف نکاح کی برکت سے ہی محبت کے رشتے میں بندھتے ہیں۔ ہمارے پاکستانی والدین بے صبری سے اس دن کا انتظار کرتے ہیں کہ کب وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہو سکیں۔ ہر کوئی اپنی اولاد کے لیے بہترین کی آرزو کرتا ہے۔ اپنی خواہشات کو مار کر اولاد کی خوشی پوری کرتا ہے۔ کیوں کہ یہ فطرت ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں اولاد کی محبت اتاری ہے۔ اگرچے دوسری طرف اسی اولاد کو مال کے ساتھ ساتھ فتنہ اور آزمائش بھی قرار دیا ہے۔ آپ خود مشاہدہ کر لیں ہم اپنی بیٹی یا بیٹے کی قسمت خود اپنے ہاتھوں سے لکھنا چاہتے ہیں۔

ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں تربیت اور دعا کا حکم ہے، کیوں کہ ہم نے اپنی اولاد کو مقصد حیات بنایا ہوا ہے، اسی لئے ہم اپنی بیٹیوں کو ضرورت سے زیادہ لاڈ کرتے ہیں۔ انھیں اتنا حساس اور لاڈلا بنا دیتے ہیں کہ وہ ہر ایک سے ماں باپ اور بہن بھائیوں جیسی محبت کی توقع کرنے لگتی ہیں۔ جو کہ بالکل نا ممکن ہے۔ ہمارا لڑکا ایک پارٹنر نہیں بیاہ کر لاتا۔ بلکہ گھر کو سنبھالنے والی، ذہنی اور جسمانی سکون دینے والی اور من پسند اولاد پیدا کرنے والی عورت کے لیے بارات لے کر جاتا ہے۔ ہماری لڑکی مالدار، تابعدار، تعلیم یافتہ، ہینڈسم اور مٹی کے مادھو کی خواہش میں شادی کرتی ہے۔ جو اسے دنیا کی ہر آسائش دے مگر کوئی قدغن نا لگائے۔

سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ والدین بجائے سمجھانے کے گھر برباد کرنے میں مکمل مدد فراہم کرتے ہیں۔ کچھ مخصوص حالات میں طلاق کا عمل نا گزیر ہو جاتا ہے۔ جب دونوں فریقین ایک طویل عرصہ گزار کر بھی ایک دوسرے کے ساتھ نا رہ سکیں تو عزت سے الگ ہو جائیں۔ مگر اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ ہم اس حلال مگر ناپسندیدہ عمل کی حمایت کرنا شروع کر دیں۔ لوگوں کی ذہن سازی کریں کہ وہ زرا سے اختلاف ہونے پر گھر ہی اجاڑ دیں۔

اگر چند لوگ طلاق کے بعد بہتر زندگی گزار رہے ہیں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کو وہی کچھ عطا کیا جس کی انھیں چاہت تھی۔ کیوں میرے رب نے تو دنیا کو آزمائش کا گھر بنایا اور مومن کے لیے اس دنیا کو قید خانہ قرار دیا۔ پھر ہم ہر چیز سو فیصد کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ ہمیں جہدوجہد کا حکم دیا گیا۔ یہ جہدوجہد صرف مالی آسودگی اور معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے نہیں تھی۔ بلکہ حقوق العباد ادا کرنے کے لئے بھی ہے۔

ہمارے خونی اور قریبی رشتوں میں ہمارے لیے سکون کے ساتھ آزمائش بھی رکھی گئی ہے۔ ہر ایک کی آزمائش مختلف طرح کی ہے۔ کوئی اولاد کے ہاتھوں تنگ ہے۔ کوئی رشتے داروں سے نالاں ہے اور کوئی بیوی یا شوہر سے پریشان ہے۔ یہی تو اس زندگی کے رنگ ہیں۔ اسی آزمائش سے نکلنے پر دنیا اور آخرت میں انعام ملے گا۔ فیصلے رب تعالیٰ پر چھوڑ کر بھروسہ تو کریں۔ شر میں خیر رکھنے والا ہمارا خالق حقیقی ہی ہے۔

طلاق کی بے جا حمایت ہر گز نا کریں۔ اپنے خاندان کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں۔ کسی کو اس پر فوقیت نا دیں۔ جب طلاق آخری انتخاب ہو تو بھی اس فیصلے میں جلدی نا کریں۔ کچھ عرصے کے لیے علیحدگی اختیار کر لیں۔ دونوں فریقین خود احتسابی کے عمل سے گزریں۔ بعض اوقات مختصر جدائی محبت کو مضبوط کر دیتی ہے۔ محبت اور رشتوں میں انا کو مت آنے دیں۔ ورنہ اس معاشرے کی دھجیاں اڑ جائیں گی۔ تمہارے بچے، میرے بچے اور پھر ہمارے بچے۔ یعنی زندگی ناہوئی، سٹار پلس کا کوئی ڈارمہ ہوگیا۔

میری والدین سے التجا ہے کہ اپنی اولاد کو شادی کے بندھن میں باندھنے سے پہلے انھیں نکاح کے متعلق قرآنی احکامات اور اس موقع پر پڑھے گئے خطبے کے بارے میں تفصیل سے بتائیں۔ انھیں بتائیں کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔ وہ لباس جو تمام عیبوں اور بد صورتیوں کو چھپا کر جسم کو خوشنما بنا دیتا ہے۔ انھیں ذمہ داری کا احساس دلائیں۔ برداشت کا درس دیں۔ نظر برائیوں کی بجائے اچھائیوں پر مرکوز کرنے کا مشورہ دیں۔ اپنی بیٹیوں کو بتائیں کہ ہم ہر وقت تمہارے ساتھ ہیں۔ مگر کسی غلط فیصلے میں اسے سپورٹ نا کریں۔

پہلے ہی اس معاشرے کو تباہ کرنے کے نام نہاد تنظیمیں برسر پیکار ہیں۔ اور اب خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لیے ادیب، دانشور اغیار کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ زندگی مشکل ضرور ہوتی ہے۔ مگر اتنی بھی بری نہیں کہ ہم اسے خود اپنے ہاتھوں تباہ کر دیں۔ اور آخر میں درخواست ہے کہ اپنے معاشرے اور حالات کو سدھارنے کے لیے دین کی طرف بھی رجوع کریں۔ آپ کو ہر مسئلے کا حل مل جائے گا۔ انشاء اللہ۔

Check Also

Mujaddid Alf Sani

By Zubair Hafeez