Hairan Kun Tabdeeliyan
حیران کن تبدیلیاں
پچھلے دنوں کچھ حیران کن ویڈیوز اور خبریں نظر سے گزریں، کیوں کہ میں عام عوام ہوں۔ جن کے مسائل اور سوچیں اور طرح کی ہیں۔ اس لیے ان کو دیکھ کر پہلے حیرانگی ہوئی پھر لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ آ گئی۔
پہلے تو مریم نواز شریف کی ویڈیو پر بات کرتے ہیں۔ کیا ہوا جو چودہ اگست کو وہ پاکستان کے یوم آزادی پر اردو میں ایک فقرہ نا لکھ سکیں۔ سی ایم پنجاب بننے کے لئے، پارٹی آرگنائزر بننے کے لیے کس نے کہا اردو کے فقرے لکھنا اور زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھنے لکھنے سے عشق ضروری ہے۔ جب ارشد ندیم مڈل پاس کرنے کے بعد ملک کا ہیرو بن سکتا ہے۔ کروڑوں روپے کما سکتا ہے۔ گریڈ 19 کی نوکری بغیر محنت اور تعلیم کے حاصل کر سکتا ہے۔ سی ایم پنجاب کی میزبانی اور پی ایم پاکستان کی مہمان نوازی سے لطف اٹھا سکتا ہے۔ تو مریم نواز شریف پر تنقید کرنا عبث ہے۔
دوسری حیران کن ویڈیو نظر سے گزری، جس میں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز شریف پارٹی کے عظیم رہنماؤں کے ساتھ بیٹھے نظر آئے اور اس سوچ میں غرق دکھائی دیئے کہ عام عوام کو بجلی کے بلوں اور دیگر ضروریات زندگی پر ریلیف کیسے دینا ہے؟ خدا کی قسم دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اتنے عظیم باپ اور چچا کو میں شاید اپنی زندگی میں دوبارہ دیکھ پاؤں گی کہ نہیں۔ اس سوچ نے مجھے آبدیدہ کر دیا۔ مہنگائی، بجلی کے بل سب بھول گئے۔ بے اختیار دل سے صدا نکلی یا اللہ! تو نے مجھ عام، مفلس عوام کو اس زندگی میں کیا کچھ دکھلا دیا۔ یہ کرشمے، یہ معجزے مجھ مجبور عوام کے نصیب میں دیکھنا لکھ دئیے۔ میرے رب تیرا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔
تیسری شاندار ویڈیو اور کچھ تصویریں دیکھیں۔ جس کو دیکھنے کے بعد آنسوؤں میں بھی ہنسی آگئی۔ اس ویڈیو میں ہمارے آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب بڑے تر وتازہ دکھائی دئیے۔ اپنے پرانے سنئیرز سے ملتے ہوئے میں نے ایک طویل عرصے کے بعد انھیں مسکراتے دیکھا۔
ایسے فنکشنز ضرور ہونے چاہیے تا کہ ماحول کا دباؤ کچھ کم ہو اور عوام کو بھی ایسی خوبصورت تصویریں اور ویڈیوز دیکھ کر لطف آئے۔ آپ سوچ رہے ہیں کہ مجھے ہنسی کیوں آئی؟ مجھے ہنسی اس لیے آئی، خاموشی کے بعد کا طوفان نظر آیا۔ جسے جو سمجھایا جانا تھا۔ اس سمجھائے جانے کا انداز پسند آیا۔
خود کو اس ملک کے لیے ناگزیر سمجھ کر عوام کا تماشا دیکھنے والوں کی پریشانی دیکھ کر ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری۔
اسمبلیوں میں بیٹھ کر ملک کے تماشے پر ہنسنے والوں کی ہنسی کو بریک لگتے دیکھا۔
اللہ تعالیٰ نے کچھ حساب اس فانی دنیا میں بھی کرنے ہیں تا کہ مظلوموں کے دل کر سکنیت ملے، اور ظالموں کو عبرت حاصل ہو۔ اسی لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہر دور کے فرعون کا موسیٰ بھی اسی فانی دنیامیں اتارا۔
پاکستان میں بھی فرعونوں کے موسیؑ موجود ہیں۔ جو فرعونوں کو گردن سے پکڑتے ہیں اور پھر چوں کی آواز بھی نہی آتی اور سناٹے چھا جاتے ہیں۔ یہی قانون فطرت ہے کہ عام عوام پر ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو پھر مٹ جاتا ہے۔ لیکن نا جانے اس مسند اقتدار میں کیسا جادو ہے جو سننے، سمجھنے، سوچنے اور دیکھنے کی صلاحیت کو زائل کر دیتا ہے اور ان پر کالا پردہ ڈال دیتا ہے۔
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "اللہ عزوجل قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹے گا، پھر ان کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لے گا اور فرمائے گا، بادشاہ میں ہوں۔ (آج دوسروں پر) جبر کرنے والے کہاں ہیں؟ تکبر کرنے والے کہاں ہیں؟ پھر بائیں ہاتھ سے زمین کو لپیٹے گا۔ پھر فرمائے گا! بادشاہ میں ہوں۔ (آج) جبر کرنے والے کہاں ہیں؟ تکبر کرنے والے کہاں ہیں؟"
کاش کہ حکمران اس مستند حدیث پاک ﷺ کو صبح شام پڑھنا شروع کر دیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو تاقیامت قائم ودائم رکھے آمین۔