Hadsat Ke Muntazir
حادثات کے منتظر
پاکستان میں رہنے والے پیارے پاکستانیوں کی دنیا میں کوئی مثال نہیں۔ ہم لوگ بہادر اور دیدہ دلیر ہیں۔ ہمارے گھر کے باہر بم بھی پھٹ جائے، ہم تسلی سے اٹھتے ہیں۔ ادھر ادھر دیکھ کر اندر آ جاتے ہیں اور سوچتے ہیں شکر ہے ہمارے گھر کی چھت سلامت ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں سے میڈیا نے لوگوں کو اتنا اینٹرٹین کیا ہے کہ ہر بڑا حادثہ، ہم لوگوں کے لیے ایک خبر بن چکا ہے، ہمیں خبروں کے ذریعے حادثوں کو سننے اور دیکھنے کی عادت ہو چکی ہے۔
ہمارے سیاستدان بھی حادثوں کے منتظر رہتے ہیں تا کہ مذمتی پیغامات جاری کر سکیں اور سوشل میڈیا سیل کو مواد مل جائے۔
اندازہ کریں کہ کبھی وہ وقت تھا، ایک فوجی، پولیس کا سپاہی یا کوئی سیکورٹی فورسز کا فرد شہید ہوتا تھا اور پوری قوم سوگوار ہو جاتی تھی۔ ملک کی فضا اداس ہو جاتی تھی اور اب گیارہ بارہ لوگ مر جاتے ہیں۔ مگر زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ حکومت مذمت کرکے ہاتھ جھاڑ کر سیکورٹی فورسز کی طرف دیکھنا شروع کر دیتی ہے اور عوام بجلی کے بل، مہنگائی کے عذاب میں گھری، سرسری ان باتوں کو ایک خبر کی طرح دیکھتی ہے اور پھر زندگی کی جنگ لڑنے میں مصروف ہو جاتی ہے۔
پچھلی کچھ دہائیوں سے پیارے ملک پاکستان نے بے تحاشا حادثات دیکھے۔ دہشگردی کی جنگ پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑی۔ لیڈر دہشگردی کا شکار ہوئے، ٹرینیں پٹریوں سے اتر گئیں، بسیں کھائیوں میں گر گئیں۔ خواتین کے ساتھ بچے بھی جنسی درندگی کا شکار ہوئے۔ سیلاب اور زلزلوں جیسی قدرتی آفات بھی آئیں۔ خون ناحق سڑکوں پر بہے۔ سینکڑوں سیکورٹی فورسز کے لوگ شہید ہوئے۔
مگر عوام اور خواص کا انداز اور رویہ اتنا لاپرواہ نہیں ہوتا تھا۔ جیسا اب ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہر چیز کیلکولیٹڈ ہے۔ یعنی دس بارہ لوگ جان سے جائیں۔ صاحب اقتدار کے مذمتی بیان آئیں۔ یوٹیوبرز چیخ چیخ کر ویڈیوز بنائیں۔ صحافی پروگرام کریں اور ہم عوام جائے وقوعہ اور جنازے میں شریک ہو کر دعائے مغفرت کم ویڈیوز زیادہ بنائیں اور سوشل میڈیا پر شئیر کرکے ویوز اور لائکس کی فکر کریں۔
ہم عوام اور اشرافیہ میں اتنی بے حسی ہو چکی ہے کہ ہماری ایک خاتون گاڑی کے نیچے پانچ بندوں کو کچل دیتی ہے مگر اس کی آنکھ میں آنسو اور چہرے پر افسوس نظر نہیں آتا۔ وہ ایک مرتبہ بھی شرمندہ ہو کر یہ نہیں کہتی کہ میرا یہ فعل غیر ارادی تھا۔ مجھے معاف کر دیں۔ ہم شہداء کی پولیس وین کو دھونے کی ویڈیو بھی شئیر کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ خون انسانی ہے۔ اسے سڑک پر بہتا دیکھ کر وارثوں کے دل پر کیا گزرے گی؟
ہمارے اعلیٰ عہدیدار صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہیں۔ صاحب اقتدار کے لیے یونیفارم سلواتے ہیں۔ مگر اپنے ادارے کو جدید سہولیات سے محروم رکھتے ہیں۔ ہماری لیڈی پولیس آفیسرز سی ایم پنجاب کا خوبصورت ہاتھ پکڑ کر خوشی سے چیخیں مارتی ہیں اور اپنے شعبے سے سنجیدگی کا اظہار کھلے عام کرتی ہیں۔ ہماری وزیر اطلاعات ہمیں اطلاع دیتی ہیں کہ بشری بیگم اور علیمہ خان کے تعلقات نکاح کے وقت سے ہی خراب تھے اور ہمارا ایک بڑا نیوز ہاؤس اس بات کو ہیڈ لائینز میں جگہ دیتا ہے۔ لوگوں کے بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور امت مسلمہ کا نام نہاد لیڈر الیکڑک ٹوتھ برش کی فرمائش پوری ہونے کے بعد کان درد کی شکائیت کر رہا ہے اور یہ بات ایک اہم خبر بن رہی ہے۔ ہم تو وہ لوگ ہیں، جو ارشد ندیم کے گولڈ میڈل پر اتنے کروڑ دے دیتے ہیں کہ باقی گولڈ میڈلسٹ کے لئے کچھ بچتا ہی نہیں، اور حکومت چپ سادھ کر بغلیں جھانکنے لگتی ہے۔
سب سے تکلیف دہ اعلان تمغہ شجاعت کا تھا۔ کیا تمغہ شجاعت ایک بیٹا ہے، جسے والدین سینے سے لگا کر زندگی گزار دیں گے؟ اور اگر یہ تمغہ شجاعت دینا ہی تھا تو اتنی جلدی اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کاش کے ان ڈاکوؤں کو ختم کرنے کے عزم کا اعلان کیا جاتا۔
کیا اس اعلان کی وجہ یہ ہے کہ کچے کے ڈاکوؤں پر عام پولیس فورسز کا ہاتھ ڈالنا آسان کام نہیں۔ اب آخری امید صرف پاک فوج ہے۔ جن سے ہم سب کام کرواتے پیں اور پھر جی بھر کر تنقید بھی کرتے ہیں۔
کیا پاک فوج پر تنقید کرنے والوں نے یہ سوچا کہ آپ لوگوں میں کچے کے ڈاکو پکڑنے کی بھی صلاحیت نہیں اور یہ فوج نا ہو تو ہم عوام اور ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے؟ سوچ کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
میرا حکومت وقت کو مشورہ ہے کہ پہلے تجربہ کار لوگوں کے ساتھ مل کر مضبوط منصوبہ بندی کریں۔ پھر بھرپور طاقت سے دشمن پر حملہ کریں۔ صرف اپنی تصویر لگوانے کی جلدی میں سیکورٹی فورسز کی جان سے نا کھیلیں۔ کوئی مانے یا نا مانے وزیراعظم پورے ملک کا وزیراعظم ہے اور وزیراعلی پورے صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے۔ اس بات کو منوانے کے لیے جلد بازی کے فیصلوں سے گریز کرنا چاہیے۔
یا پھر کچے کے ڈاکوؤں سے ڈیل کر لیں کہ وہ ہماری پولیس فورس کی ٹریننگ کر دیں۔ بدلے میں توبہ کے بعد عام معافی مل جائے گی۔ بار بار خیال آتا ہے کہ کچے کے ڈاکو اتنے پکے کیسے ہوئے؟ کہ قابو میں ہی نہیں آرہے۔
صاحب اقتدار سے التجا ہے کہ خدارا حادثات کے منتظر نا رہا کریں۔ انسانی جان کو اتنا سستا نا کریں۔ آپ۔ لوگوں نے روز محشر اللہ رب العزت کی عدالت میں کھڑے ہونا ہے اور اپنے ہر فیصلے کی وضاحت بھی دینی ہے۔