Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Gustakh Nazar

Gustakh Nazar

گستاخ نظر

دین اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ آپ اگر مسلمان نہیں بھی تو اس دین کا مطالعہ کریں آپ کو محسوس ہوگا کہ انسان کے ذاتی مسائل سے لے کر، معاشرے کے اجتماعی مسائل تک کوئی بات ایسی نہیں، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کے زریعے تربیت نا فرمانی ہو۔

ہمیں اپنے ہر مسئلے کا حل دین اسلام میں نظر آتا ہے۔ سوچیں کپڑے پہننے سے لے کر جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے تک، کون سی بات ہے جس کا حل پیش نہیں کیا گیا۔ پھر بھی ہم اغیار کے طور طریقوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ لگتا ہے کہ وہ ہم سے بہتر سوچتے اور بہتر عمل کرتے ہیں۔

سچ پوچھیں تو اس بات میں کافی حد تک سچائی بھی ہے۔ مجھ جاہل کو لگتا ہے۔ ہم صرف اپنے دین سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسے عملی طور پر اپناتے نہیں۔ ہمارے سیاستدان ووٹ بنک بڑھانے کے لیے اسلامک ٹچ دیتے ہیں۔ ہمارے علماء اکرام دین کی تفسیر وشرح پر صرف اپنا حق سمجھتے اور دوسروں کو گمراہ کہتے ہیں۔

ہماری عوام کا سارا زور بدنی عبادات اور وظائف کی طرف ہے۔ ہم عام عوام دولت و کامیابی حاصل کرنے کے لیے، محبوب کو قدموں میں لانے کے لیے، محنت کم اور وظائف پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ ہم اپنے دشمنوں کو زیر کرکے غلام بنانے کے لیے بھی وظائف کرتے ہیں۔ مگر دشمنیوں کی وجہ ختم کرنے پر غور نہیں کرتے۔

عورت کو مستور کہا گیا یعنی چھپی ہوئی چیز، مگر ہم فخر سے اس سب سے قیمتی شے کو سر عام رکھ دیتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ کوئی اس قیمتی اثاثے کو دیکھنے کی جرآت بھی نا کرے۔ ورنہ باپ پریس کے سامنے بتائے گا کہ میری بیٹی کو کس طرح اور کس جگہ دیکھا گیا ہے۔ تو میری بیٹی کا تھپڑوں کی برسات کرنا حق تھا۔ میں بہت لبرل خاتون ہوں۔ میں فیشن، فنون لطیفہ، ماڈرن ازم کسی بھی شے کے خلاف نہیں۔ بلکہ میں خود ہر بات سے لطف اٹھاتی ہوں اور سمجھتی ہوں کہ ہر انسان اور مسلمان کو اپنی حدود کا متعین کرتے ہوئے دنیا کی ہر نعمت سے مستفید ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اللہ رب العزت کے ہاں سب نے اپنا اپنا حساب دینا ہے۔ بس خیال رکھنا چاہیے کہ معاشرے اور دین اسلام کی باونڈ ریز متاثر نا ہوں۔

آپ جینز، ٹاپ ضرور پہنیں۔ دوپٹہ نہیں اوڑھنا چاہتی ہیں۔ نا اوڑھییں۔ مگر یہ مت کہیں کہ سب آنکھوں کو نیچے جھکا لیں۔ کیوں کہ میں باہر نکلی ہوں۔

یہ رویہ انتہائی غیر مناسب ہے۔ ہر ذی شعور یہ جانتا ہے کہ مالز میں کام کرنے والے سیل مینز کا تعلق پسماندہ طبقے سے ہوتا ہے۔ ان لڑکوں نے ایسی مخلوق صرف ڈراموں اور فلموں میں دیکھی ہوتی ہے۔ جب وہ مجسّم سامنے آتی ہے تو آنکھیں گستاخی کر جاتی ہیں۔ لڑکیوں میں قدرتی طور پر یہ اس گستاخی کو پہچاننے کی حس بہت شارپ ہوتی ہے۔ مگر میری اپنی پیاری بہنوں اور بیٹیوں سے ہاتھ جوڑ کر التجا ہے کہ یہ گستاخی کرنے والوں کو تھپڑ مارنے سے پہلے سورہ الاحزاب، سورہ النور کا ترجمہ پڑھ لیں اور ستر کے بارے میں معلومات بھی حاصل کر لیں اور کھلے دل سے اپنا بھی محاسبہ کریں کہ ہم کہاں کھڑی ہیں۔

ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہ میں نہیں آئین کہتا ہے۔ اس ملک کے اس نام پر ہی غور کر لیں۔

دین اسلام مکمل ہو چکا۔ ہدایت اور گمراہی کے راستے الگ الگ کیے جا چکے۔ سزاوجزا۔ کے پیمانے بھی بتائے جا چکے ہیں۔ صرف اپنا اپنا محاسبہ کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ مجھ گناہ گار سمیت ہم سب کو ہدایت اور استحکام عطا فرمائے آمین۔

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed