Ghaate Ka Soda
گھاٹے کا سودا
پیارا ملک پاکستان جب سے معرضِ وجود میں آیا ہے، صاحب اقتدار نے عوام کو شخصیت پرستی کے گورکھ دھندے میں الجھایا ہوا ہے۔ ہم عام عوام اپنی پوری رضا اور دل کی خوشی کے ساتھ اس چکر میں اُلجھتی ہیں۔ یہ شخصیت پرستی ایک جونک کی صورت پاکستان کو چمٹی ہوئی ہے۔ خون پی پی کر یہ جونک ہاتھی بن گئی مگر نا اس کا پیٹ بھرتا ہے اور ناہی یہ مرتی ہے۔
چلیں ماضی کو چھوڑیں حالیہ حالات دیکھ لیں۔ ملک میں اتنی تقسیم شاید کسی دور میں نہیں ہوگی۔
اس میں بہت زیادہ قصور ہم عام عوام کا، اور سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل کا ہے۔ ہم عام عوام اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کے لیڈرز کو آسمان سے اتری کوئی ایسی مخلوق سمجھتے ہیں، جو صرف اللہ رب العزت نے ہمارے لیے پاکستان کے خطے پر اتاری ہے۔ یہ مخلوق بلکہ مسیحا ہماری زندگیوں کے سب مسائل حل کر دے گا۔ ہماری سب تشنگیوں کو سیراب کر دے گا۔
ہمیں دنیا میں ہی نعوذباللہ بہشت کے نظارے کروا دے گا۔ یہ بھی ہمارا ہی ماننا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں وہ لیڈر ہمارے ہی جیسا انسان ہے۔ جس کے دل میں منافقت، لالچ، جھوٹ، ہوس، کی بیماریاں بھی ویسے ہی بھری ہیں، جس طرح ہم عام عوام کے دلوں میں موجود ہیں۔
پہلے یہ شخصیت پرستی کا زہر سے بھرا پیالہ سیاسی کارکنان اپنے لیڈرز کی محبت میں پیتے تھے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس محبت کا نمکین سمندر وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی کارکنان اس سمندر میں تیرتے ہوئے، یہ بھول رہے ہیں کہ آپ تشنہ ہی رہیں گے۔ اس نمکین سمندر کا ایک قطرہ بھی حلق سے نیچے نہیں اتر پائے گا۔
ان پیڈ سیاسی کارکنان نے ملک کا ہر ادارہ، ہر عہدہ متنازعہ بنا دیا ہے۔ حال یہ ہے کہ ججز کی تقرری ہو، یا کسی محکمے میں سیکرٹری ہی لگانا ہو۔ ہر طرف شور مچ جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈرز ہر جج کا نام لے کر اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں اور اس بیچارے کو متنازعہ بنا دیتے ہیں۔ یعنی آنے والا، جانے والا دونوں ہی متنازعہ۔ یہ سیاسی لیڈرز اپنے سوشل میڈیا سیل کو اس مکروہ عمل کے لیے بھرپور استعمال کرتے ہیں اور سوشل میڈیا سیل والے اپنی تنخواہیں حلال کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔
جو جج حکومت پاکستان سے تنخواہ اور مراعات لے کر رخصت ہوا، اور اپنے ہر فیصلے کے لیے اللہ تعالٰی کے آگے جوابدہ ہوگا۔ ہم اس بیچارے جج کی تعریفوں کے ایسے پل باندھتے ہیں کہ اس کا زمین پر چلنا ہی مشکل کر دیتے ہیں اور اس کام سے رکتے نہیں۔ بلکہ نئے آنے والے کے گن گانا شروع کر دیتے ہیں۔
ہم عوام تو پاک فوج کے ان عہدوں کو بھی متنازعہ بنا دیتے ہیں۔ جن پر پاک فوج کے اپنے لوگ بھی اچھی یا بری رائے نہیں دیتے۔
یاد رکھیں یہ شعور نہیں، بلکہ دل بہلانے کے تماشے ہیں۔ بے مقصد بحث ہے۔ کس ایجنڈے کے تحت ہر عہدے اور شخصیت کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے، اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
ہم عام عوام کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم شطرنج کی بساط کے پیادے ہیں، یا گوشت پوست کے زندہ انسان یہ بھی خود ہی دیکھنا ہوگا۔ ہم کیوں پاور شئیرنگ کی لالچ میں خود کو لیڈرز کی کٹھ پتلیاں بنا رہے ہیں۔ یاد رکھیں آپ کے سیاسی لیڈرز سب سے پہلے اپنے آپ کو محفوظ کریں گے۔ پھر صرف زبانی کلامی ہی آپ کا ساتھ دیں گے۔ ہر تکلیف صرف آپ کو اور آپ کے خاندان کو خود بھگتنی ہوگی اور یہ گھاٹے کاوہ سودا ہے۔ جو صرف بیوقوف ہی کرتے ہیں۔