Ehd e Wafa
عہد وفا
میری یونیورسٹی کے بہت ہی محترم استاد سر کامران سے کلاس میں ایک سوال پوچھا گیا۔ سر انسان کو کامیاب ہونے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے؟ سر کامران نے نا بھولنے والا جواب دیا۔ استاد محترم نے فرمایا۔ محنت، پھر قسمت اور آخر میں اللہ رب العزت سے دعا۔ لیکن ہم الٹا کرتے ہیں۔ ہم سب سے پہلے دعا مانگتے ہیں۔ پھر قسمت پر انحصار کرتے ہیں اور آخر میں محنت شروع کرتے ہیں۔ اس لئے نتائج سو فیصد بہت کم ہی حاصل ہوتے ہیں۔ استاد محترم کی یہ بات شاید کبھی بھی نہیں بھولے گی۔
الحمدللہ میں پاکستان کی ایک عام گھریلو خاتون ہوں۔ جس کا تعلق مڈل کلاس سے تھا۔ پھر امت مسلمہ کے لیڈر کی مہربانی سے لوئر مڈل کلاس میں پہنچ گئی۔ میرے گھر کے مسائل وہی ہیں جو عام پاکستانیوں کے ہیں۔ ہم آٹا، چینی، چکن، کوکنگ آئل سستا ہونے پر خوش ہوتے ہیں۔ بجلی کا کم بل ہماری رکی سانسیں بحال کرتا ہے۔ سردی کا استقبال ہم سلنڈر ٹھیک کروا کر کرتے ہیں۔ نا کہ مہنگا ڈرائی فروٹ خرید کر۔ اس کلاس کے بچے دودھ کم چائے پینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس کلاس میں ہر کام ضرورت کے لئے ہوتا ہے۔ چاہے وہ کھانا ہو، کپڑوں کی شاپنگ ہو، یا کسی بھی قسم کی خریداری ہو۔ نیٹ، لیپ ٹاپ ان کی سب سے بڑی عیاشی ہے۔ یا وہ تفریحی ڈرامے جن کو دیکھنے کی والدین اجازت دیتے ہیں۔
اس ماحول میں پروان چڑھنے والے بچوں کو ایسے تفریحی مواد کی ضرورت ہے۔ جو ان کے اندر احساس کمتری پیدا نا ہونے دے۔ بلکہ ان کے اندر حوصلہ پیدا کرے کہ قسمت بدلی بھی جا سکتی ہے۔
مجھے اور میرے شوہر کو جو ڈرامہ یا مووی پسند آئے ہم بچوں کو ضرور دکھاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے پرانے ڈراموں میں ایک ڈرامہ عہد وفا دیکھا۔ بہترین کہانی، بہترین کردار غرض ایک بہترین ڈرامہ جو اوائل عمر(ٹین ایج) کے بچوں کے لئے بہترین تفریح تھی۔ اس ڈرامے میں ہر طبقے کے بچے کو کامیاب ہوتے دکھایا گیا ہے۔ تفریح کے عنصر کو بھی مقدم رکھا گیا ہے۔ انسانی جزبات، معاشرتی رویے بھی نظر آتے ہیں۔ اس ڈرامے میں غربت کو ایک جرم کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ محبت کا انجام جلد شادی نہیں دکھایا گیا۔ معاشرے میں باعزت مقام حاصل کرنے کی جدوجہد دکھائی گئی۔ یہ بتایا گیا کہ کامیاب ہونے کے لئے منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونا ضروری نہیں۔ اعلیٰ خاندان اور پڑھے لکھے والدین ضروری نہیں۔ سچی دوستی اور محبت میں طبقاتی فرق حائل نہیں۔
مجھے معلوم ہے نقاد فورا مجھے زمینی حقائق بتاتے ہوئے جھٹلائیں گے۔ اور یہ فرمائیں گے ڈرامے کو حقیقت مت سمجھئے جناب۔۔ حقیقت بڑی تلخ ہے۔
لیکن میرا صرف ایک سوال ہے۔ نقاد سے بھی اور صاحب اقتدار سے بھی۔ (لمز) مکھن تو ہر سلائس پر آرام سے، نرمی سے لگ جائے گا۔ کھانے میں مزیدار اور طاقت بھی دے گا۔ (چھاچھ) کدھر جائے گا؟ مٹی کی ہانڈی میں سات آٹھ گھنٹے پک کر صرف کڑھی ہی بنے گی؟ تو اس چھاچھ کی بنی ہوئی کڑھی کو مزیدار بنانے کی کوشش تو کرنی چاہیے نا۔۔ پکوڑے ڈال کر پیاز، مرچ کا تڑکہ لگا کر۔۔ تا کہ برہمن اور شودر کی تقسیم ختم کرنے والے نبی حضرت محمد ﷺ کے اصل پیروکار بن سکیں اور روز محشر خالق کے سامنے کھڑے ہونے کے قابل بھی بن سکیں۔
اختلاف آپ کا حق اور دل کی بات کہنا میرا حق ہے۔