Behke Hue Nojawan
بہکے ہوئے نوجوان
ہماری پاکستانی قوم کے کچھ بچے ایسے ہیں۔ جن کی حرکتوں پر ہنسی آتی ہے۔ غصے کے ساتھ پیار بھی آتا ہے۔ بالکل ان والدین کی طرح جو اپنے نالائق، بد تمیز اور ڈھیٹ بچوں کے لیے پریشان رہتے ہیں۔ ان سے محبت کرتے ہیں، ان کی حرکتوں پر ہنستے بھی ہیں۔ مگر دل ان کے مستقبل کے لیے پریشان رہتا ہے۔ بے بسی میں اپنے رب سے ان کے سدھرنے کی دعا کرتے رہتے ہیں۔
ہماری قوم کے یہ بچے سب سیاسی پارٹیوں کے سوشل میڈیا سیل کے پیڈ ملازمین ہیں۔ ان کا تعلق وفاداری سے نہیں ہوتا۔ مگر یہ اپنے ذاتی مفادات کی حفاظت کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا سیل پر اپنی ذہنی اور دلی فرسٹریشن نکالتے ہیں۔ حالانکہ انھیں کسی بھی سیاسی رہنما سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ مگر سب کچھ کرنا ان کی جاب کا حصہ ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ لوگوں کا جسمانی نہیں ذہنی اور معاشی وہ قتل کرتے ہیں جس میں قاتل اور مقتول دونوں وجہ سے بے خبر ہیں۔ کسی کا جی میل اکاؤنٹ، یو ٹیوب چینل، فیس بک، انسٹاگرام یا اسمارٹ فون ہیک کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے۔
مجھے ان بچوں پر بڑا ترس آتا ہے۔ کیوں کہ ان کی اندر تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان ہوتا ہے اور یہ بیچارے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے قابلِ ترس حرکتیں کرتے ہیں۔ جب بغیر سکھائے اور غیر تربیت یافتہ بندر کے ہاتھ میں استرا دے دیا جائے۔ تو وہ سب کا سر نہیں مونڈھتا بلکہ زخمی بھی کر دیتا ہے۔
عمران خان ملکی سیاست میں واپس آتا ہے یا نہیں۔ یہ تو رب تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ ویسے بھی پاکستانی سیاست میں صرف نام اور چہرے بدلتے ہیں۔ کہانی اور کردار وہی رہتے ہیں۔ لیکن۔ میری آخری سانس تک عمران خان سے یہ گلہ رہے گا کہ ایک ناپائیدار اور بے وفا عہدے کی خاطر انھوں نے قوم کی نوجوان نسل کو اخلاقی پستیوں میں دھکیل دیا۔ عمران خان کے بچے مسلمان نہیں، ان کے پاس نہیں رہتے۔ اس لیے انھیں اندازہ نہیں کہ ایک غیر تربیت یافتہ نوجوان لڑکا یا لڑکی پوری نسل برباد کر سکتے ہیں۔
ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جو کسی کے پھسل کر گرنے پر قہقہے لگاتے ہیں۔ دوسروں کی بیل بجا کر بھاگ جاتے ہیں اور اسے تکلیف میں دیکھ کر ہنستے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل چوریاں کرکے خود کو کامیاب سمجھتے ہیں۔ دوسروں کی قسمت چھین کر، اسے نوچتے ہیں۔ گدھ بن جاتے ہیں۔ زندہ لوگوں کو جلا کر تماشا دیکھتے ہیں۔ عورت کو رب تعالیٰ نے جسمانی طور پر کمزور اور طبیعت کے لحاظ سے معصوم و جذباتی بنایا۔ ہم اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، بیویوں کے علاوہ تمام عورتوں کو مال مفت سمجھتے ہیں۔ ان کی تذلیل کرتے وقت، عامیانہ طرز گفتگو کرتے ہیں اور خود کو مرد کہتے ہیں۔
میں ان سب اخلاقی پستیوں کا ذمہ دار اس لیڈر کو سمجھتی ہوں۔ جس نے یہ تمام اسثینڈرڈز سیٹ کیے اور خوف کے بت توڑ دینے کا مشورہ دیا اور پھر سب لوگ بغیر سوچے سمجھے اس کے پیچھے چل ہڑے۔ لوگ تو وہ ہوتے ہیں جواللہ تعالیٰ کے پیغمبر کو سامنے دیکھ کر بھی بچھڑے کی پوجا کرنے لگ گئے تھے۔ خیر کی نسبت شر اپنی جگہ جلد بناتا ہے۔
شر نے اپنی جگہ بنا لی۔ انشاء اللہ خیر حاوی ہو جائے گی۔ مگر اس کے لیے خود احتسابی کے عمل کی اشد ضرورت ہے تا کہ راستے سے بھٹکے ہوئے لوگ راہ راست پر آ سکیں اور بغیر کسی بڑے نقصان کے آ سکیں۔ وگرنہ زندگی تو اچھے برے سب لوگوں کی گزر ہی جاتی ہے۔ بس اوپر کا حساب سب کا مختلف ہوگا۔
چند دن پہلے جاوید چوہدری صاحب نے اپنے ایک کالم میں تمام نوجوانوں کو راجہ انور کی کتاب The terrorist prince پڑھنے کا مشورہ دیا۔ میں نے دہشت گرد شہزادہ کے نام سے اس کتاب کا ترجمہ پڑھا اور اسے اپنی لائیبریری میں اپنے بچوں کے لیے سنبھال کر رکھ لیا۔ میں صرف نوجوانوں کو یہ کہنا چاہتی ہوں نقصان سے پہلے سنبھل جائیں۔ دوسروں کے مہرے نا بنیں۔ ورنہ آپ کے ہاتھ صرف پچھتاوے رہ جائیں گے۔ کیوں کہ کہانی وہی رہتی ہے صرف کردار بدل جاتے ہیں۔