Be Maqsad Ehtejaj
بے مقصد احتجاج
آپ سوچیں کہ آپ اپنے گھر میں تھکے ہارے داخل ہونے کے لیے ڈور بیل بجائیں۔ دروازہ کھلتے ہی آپ پر پتھروں اور گالیوں کی برسات ہو جائے۔ آپ کے گھر والے آپ کو دھکے دے کر باہر نکالیں اور کہیں یہ ہمارا گھر ہے، تم یہاں سے چلے جاؤ۔ تو آپ کی کیا حالت ہوگی؟
پہلے تو آپ ہکا بکا ہو جائیں گے۔ پھر آپ کو یہ احساس ہوگا کہ میں اس گھر کے افراد کو سکون دینے کے لیے اتنی محنت کر رہا ہوں، انھیں مالی آسودگی دینے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہوں اور میرے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے؟ آپ کا غصہ جنون بن جائے گا۔ آپ با آواز بلند کہیں گے دروازہ کھول دو ورنہ میں اسے توڑ دوں گا اور جب بیوقوف گھر والے اسے گیڈر بھبھکی سمجھیں گے تو پھر آپ دروازے کو توڑنے کے لیے ٹھڈوں سے لے کر لوہے کی راڈ تک ہر چیز کا استعمال کریں گے۔ پھر جب دروازہ ٹوٹ جائے گا۔ تو آپ کو سامنے کوئی پیارا، لاڈلا اور شرارتی نظر نہیں آئے گا۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے بعد بھی آپ کو اپنی تذلیل کا دکھ بھولے گا نہیں اور گھر والوں سے ہمدردی کرنے والا ہر شخص برا لگے گا، کیوں کہ وہ آپ کی کیفیت سمجھ نہیں رہا۔
احتجاج کرنے والی مخلوق نے گھر کے سربراہ پر چوٹ لگانے کی کوشش کی۔ مجھ جیسی عام عوام اس کوشش کو ناکام سمجھتی ہے۔ کیوں کہ اس کوشش نے بانی کو، اس کی سیاست اور بائیس سالہ جدوجہد کو ایک دن میں ختم کر دیا۔
اس ملک کے سیاست دان جتھوں کی سیاست سے مقاصد حاصل کرنے کی ہلکی پھلکی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مگر حد سے باہر نہیں نکلتے کیوں کہ جانتے ہیں کہ وقت کا پہیہ گھوم کر آئے گا اور ہمیں بھی ایک دن کچلے گا۔
یہی متانت، سیاسی شعور بھٹو شہید کو پھانسی پر چڑھانے کے بعد، نواز شریف کو زمین پر سونے کے بعد بھی برداشت کا درس دیتا ہے۔
کوئی بھی ملک کے خلاف احتجاج نہیں کرتا۔ نہتے بے لوث کارکنان کو رسوا نہیں کرتا۔ کیوں کہ جانتے ہیں جنگ اصولوں کی کم، مفادات کی زیادہ ہوتی ہے۔ تو پھر رسی اتنی نا کھینچی جائے کہ جان ہی نکل جائے۔ مگر کیا کریں جن کے پیش نظر ذات ہو، عہدے اور اقتدار کی ہوس ہو۔ وہ صرف قبضہ اور تباہی چاہتے ہیں۔ چاہے معصوم جانیں چلی جائیں۔ انھیں اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
ملک کی محبت کا تو صرف ایک ڈھکوسلہ ہے۔ اصل جنگ اقتدار اور کرسی کی ہے اور اسکے حصول کے لیے چاہے کچھ بھی کرنا پڑے، احتجاج کرنے والے تیار رہتے ہیں۔
کرسی اقتدار ایک زنجیروں میں جکڑی مسند ہے جس پر بیٹھنے والے کو اپنی ذات بھلا کر صرف ملک کے لیے سوچنا پڑتا ہے۔ آپ کسی سے اختلاف اور نفرت کے باوجود اس کا اظہار کھلے عام نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ ملک کی سالمیت کا معاملہ مقدم ہوتا ہے۔
جب اعلیٰ عہدے پر براجمان شخصیات کو گلی محلوں میں رسوا کرنے کے لیے ویڈیؤ پیغامات جاری ہوں، تو یہ ملک کا بھلا نہیں ہوتا۔ بلکہ ملک کی سالمیت اور ترقی کے عمل کو ضربیں لگائی جاتی ہیں۔ اس عمل سے نفرتیں پروان چڑھتی ہیں۔ تو کیا ہم میں اب اس نفرت اور شر پسندی کو برداشت کرنے کی ہمت باقی رہ گئی ہے؟
کیا لیڈر ایسے ہوتے ہیں؟ جو اپنی ذات اور انا کی خاطر ملک کو آگ میں جھونک دیں۔ لیڈر کی بیوی بچے خاندان بعد میں پہلے اس کی عوام اور ملک ہوتا ہے۔
یہ کیسے لیڈر اور ان کی زوجہ محترمہ ہیں۔ جو گھر آئے مہمانوں کے سامنے تماشا لگا کر غائب ہو گئے؟ اور پھر چاہتے ہیں کہ ہم سے پوچھ گچھ بھی نا کی جائے۔ ایک بے مقصد اور انتہائی غیر منظم احتجاج جو بے گناہوں کی جان لے گیا۔ ملک میں موجود عدالتی نظام پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
کیا کوئی بھی پندرہ بیس ہزار لوگوں کے ساتھ جیل میں بیٹھے شخص کی رہائی چاہ سکتا ہے۔ وہ شخص بے قصور ہے یا قصور وار فیصلہ کرنے کا اختیار عدالتوں کے پاس ہے۔ عدالتی نظام پر، اس کے فیصلوں پر اعتراض ہونے کے باوجود سر تسلیم خم کرنا ضروری ہے، وگرنہ ملک چل نہیں پاتے۔
یہ بات عام عوام کو سمجھ آگئی مگر اس ملک کے صاحب اقتدار کو کب سمجھ آئے گی؟ یہ ملک سلامت اور مضبوط ہوگا تو آپ کو جلسے جلوسوں میں ناچنے، جھومنے، ہاتھ ہلانے، فلائنگ کس کرنے کے بہت مواقع ملیں گے۔ اتنی بے تابی اور جلدی کس بات کی ہے؟
خدارا ریاست کو ریاست سمجھیں اور صحافی حضرات جلتی میں مزید تیل ڈالنے کی بجائے آگ کو بجھانے کی کوشش کریں۔ وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی عام عوام سمیت سب کو ضرورت ہے۔