Bache Samajh Jaate Hain
بچے سمجھ جاتے ہیں
میرے تینوں بیٹے اپنے بابا جان کے فرمانبردار ہیں۔ وہ میری بات نہیں مانیں گے۔ مگر بحث کے باوجود اپنے والد محترم کی بات سنتے اور مانتے ہیں اور اس بات پر مجھے ہر گز اعتراض نہیں۔ کیوں کہ ان کی محبت میں مجھے کبھی کمی محسوس نہیں ہوئی۔
کل میرا بڑا بیٹا کالج سے گھر جلدی آگیا۔ سوال کرنے پر بولا۔ کالج میں اسٹوڈینٹ تنظیم نے تمام کلاسز خالی کروا کر مین گیٹ بند کر دیا اور کہا بسوں میں بیٹھو احتجاج کے لیے جانا ہے۔ بچوں کے والد محترم نے سختی سے منع کیا ہوا ہے کہ کالج ٹائم میں کسی ایسے ایونٹ کے لیے باہر نہیں جانا۔
بیٹے نے گیٹ پر موجود تنظیم کے ممبر سے کہا کہ مجھے جانے دیں۔ اس نے انکار کر دیا۔ بیٹے نے کہا مجھے والد کی طرف سے اجازت نہیں ہے۔ میں نہیں جا سکتا۔
اس بندے نے کہا فون نمبر دو۔ میرے بیٹے نے والد اور میرا دونوں نمبر بتائے اور کہا میرے پاس تو فون نہیں۔ آپ ان نمبرز پر فون کر لیں۔ اگر اجازت ملتی ہے، تو میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔
اس بندے نے کچھ سوچا پھر کسی کو فون ملایا۔ بات کرنے کے بعد بولا جاؤ تم۔
بیٹا کالج سے نکلا، بس پکڑی اور گھر پہنچ گیا۔
میں یہ ساری بات سن کر بے اختیار الحمدللہ بولی۔ مجھے اپنے بچوں سے گلے کافی حد تک ختم ہو گئے۔ ورنہ ہر ماں کی طرح میرا پسندیدہ شکوہ اور جملہ یہی ہے۔ ڈھیٹ میری بات سنتے ہی نہیں۔
پاکستان جب اپنی تکمیل کے مراحل طے کر رہا تھا۔ تو اس تمام عمل میں نوجوانوں اور طلبہ کا کردار بہت مضبوط تھا اور ہونا بھی چاہیے تھا کیوں کہ وہ جہدوجہد ایک آزاد ملک کی جہدوجہد تھی۔ جس میں بڑے چھوٹے، بوڑھے جوان، خواتین سب اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے تھے۔ لیکن پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ایک آزاد ملک میں پروان چڑھنے کے بعد ہماری نوجوان نسل کا سیاست اور احتجاجوں میں شریک ہونا، سمجھ سے بالاتر ہے۔
احتجاج صحت مند معاشرے کی ایک نشانی ہے۔ عوام کے حقوق اگر پامال ہو رہے ہیں تو وہ ضرور احتجاج کریں۔ جس ملک میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ اس کے لئے بھی احتجاج کیا جائے۔ مگر گھر سے کالج جانے والے بچوں کو کسی بھی ایسے عمل میں زبردستی شریک نا کیا جائے۔
اولاد والدین کا قیمتی اثاثہ ہے۔ یہ اثاثہ دوسروں کا آلہ کار بننے دینا، والدین کی غلطی ہے۔
میرے بیٹے کا ایک سنئیر دوست، جو انتہائی ذہین اور لائق تھا۔ کلٹ کی باتوں میں آکر اپنی رجسٹریشن کروا بیٹھا۔ اب اپنی سپلی کی تیاری کے ساتھ، باقاعدہ درخواست لکھ کر رجسٹریشن منسوخ کروا چکا ہے اور اپنے ماضی پر پریشان بھی ہے۔
مجھے پتا ہے اس قصے میں دلچسپی کا عنصر کم ہوگا۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو یہ باتیں سمجھائیں۔ ان کی سرگرمیوں کے متعلق کرید کر بات کریں۔
اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ یہ آخرت میں بھی ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنے گی۔ ان کی تربیت کرتے وقت ان سے روبوٹ بننے کی توقع مت رکھیں۔ یہ ستائیں گے، بدتمیزی کریں گے، زبان کے جوہر دکھائیں گے، مگر پھر بھی آپ کی سمجھائی بات ان کے ذہن میں کہیں نا کہیں محفوظ رہے گی اور آپ کی دعاؤں کے سبب اللہ تعالیٰ انھیں یاد کروا کر عمل بھی کروا دے گا۔
کیوں کہ یہ میرے رب کا وعدہ ہے کہ اولاد کے حق میں والدین کی دعا رد نہیں ہوتی اور وعدوں کی تکمیل میں میرے رب سے بڑھ کر سچا کون ہوگا؟ خدارا اپنے بچوں کے مستقبل برباد نا ہونے دیں۔ انھیں سمجھائیں نا کہ خود بھی ان جلسے جلوسوں میں شریک ہو کر ان کے حوصلے بڑھائیں۔ بچے تو سمجھ جاتے ہیں بڑوں کو کون سمجھائے؟