Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Aseeran e Mohabbat

Aseeran e Mohabbat

اسیران محبت‎

محبت چار حروف سے بنا ایک لفظ، اتنا طاقتور کہ دنیا کی ہر چال کی بساط الٹ کر رکھ دے۔ لیکن محبت کی اس طاقت کا استعمال درست طریقے سے ہونا چاہیے۔ وگرنہ اس بڑا عذاب بھی شاید کوئی نہیں۔

محبت کو ایک خوبصورت پرندہ سمجھ لیں۔ جس کے پاس طاقت پرواز اس قدر ہےکہ آسمان کی وسعتوں کو چیرتا ہوا آگے ہی بڑھتا چلا جائے۔ منزل کی تلاش میں آخری آسمان تک پہنچ جائے۔ مگر جوں جوں منزل قریب آتی جائے۔۔ بینائی کمزور ہوتی جائے۔ اردگرد اور قریب کی اشیاء دھندلی نظر آنا شروع ہو جائیں۔ مگر پرواز کی طاقت اور خواہش کم نا ہو۔

اس ہوس اور مزید کی چاہت کا انجام یہ ہوکہ سامنے مضبوط اور قد آور چٹان دکھائی تو دے۔ مگر اپنے پروں پر اتنا بھروسہ کہ سوچا جائے کہ اس کے اوپر سے بھی اڑ جاؤں گا۔ لیکن انجام مختلف نکلے۔ چٹان سے ٹکرا کر پروں کو زخمی کروا کر آسمان کی وسعتوں سے ہوتے ہوئے زمین پر گرا پرندہ، جسے پنجرے میں بند کرکے علاج شروع کر دیا جاتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ اڑنے کے قابل نہیں رہتا۔ اسے اچھی خوراک تو مل جاتی ہے مگر آزادی نہی ملتی کہ کہیں دوبارہ اندھی پرواز میں خود کو زخمی نا کر لے۔

محبت کا تصور ہر ایک عمر میں مختلف ہے۔ اوائل عمری کی جنونی محبت، جو موت کو بھی گلے لگانے سے نہیں ہچکچاتی۔ والدین کی فطری محبت، جو صرف (دینا) جانتی ہے۔ بہن بھائیوں کی، خونی رشتوں کی محبت، دوستی کی پرخلوص محبت، شوہر اور بیوی کی(سمجھدار) محبت۔ اور سب سے تکلیف دہ اندھی محبت جو کسی سے بھی ہو جائے تو تباہی کے علاؤہ کچھ نہیں لاتی۔

امت مسلمہ کے نام نہاد لیڈر کے اندھے پیروکار بھی ایسے ہی تھے۔ اپنی اندھی محبت کے پرندے کو بغیر منزل کا تعین کیے اڑاتے ہی چلے گئے اور نتیجہ پروں کو زخمی کرنے کے بعد کچھ تو اسیر ہوگئے۔ مگر کچھ خود کو درختوں میں چھپا کر دوبارہ پرواز لینےکی ہوس میں مبتلا ہیں۔ کہ شاید منزل مل جائے۔ وصل یار ہو جائے۔

افسوس صد افسوس اس محبت نے آنکھیں اتنی اندھی کر دی ہیں کہ زمینی حقائق نظر نہیں آرہے۔ شدید موسم آچکا ہے۔ اگر خود کو بچایا نا گیا تو کسمپرسی کی موت خود اپنے ہاتھوں سے مقدر میں لکھی جائے گی اور جس کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا اس محبوب کو پرواہ بھی نا ہوگی۔ کیوں کہ محبوب کی خواہشات بدل چکی ہیں۔ دیسی گھی میں پکے کھانے سے شروع ہونے والا سفر، ایکسر سائز سائیکل پر تمام ہو رہا ہے اور اندھی محبت کے پیروکار دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اپنے جھنڈ سے بچھڑ کر جدائی کی طویل راتیں کاٹ رہے ہیں۔

نعوذباللہ میرا گمان ہےکہ کاتب تحریر کے سامنے اسیران محبت کو جب زنجیروں میں جکڑ کر لایا جاتا ہوگا تو وہ بھی مسکرا کر کہتا ہوگا۔ زنجیریں اتار دو یہ تو اندھی محبت کی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے کہاں بھاگے گا اور کب تک بھاگے گا؟

Check Also

Na Milen Ke Bharam Qaim Rahe

By Rauf Klasra