Aqalmand Log
عقل مند لوگ
میرے ذاتی تجربے میں آیا ہے کہ ایموشنز یعنی جذبات عمر اور وقت کے ساتھ بڑی آہستگی اور خوبصورتی سے تبدیلی کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔ یہ جذبات اپنے ساتھ خواہشات کو بھی ہمسفر بنا لیتے ہیں اور ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ترجیحات بھی اس عمل سے گزر کر بدلتی جاتی ہیں۔
ہر ذی شعور انسان کی زندگی میں یہ دور ضرور آتے ہیں۔ جو انسان خوشدلی سے اس تبدیلی کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اس کا وجود تبدیلی کے دلفریب عمل سے ایک پانی کے بھرے برتن کی طرح بھرتا جاتا ہے۔ یہ عمل ہماری نیت، طبعیت ہر شے کو سیر کر دیتا ہے۔ ہماری فطرت کی بھوک کو سمجھیں بریک لگا دیتا ہے۔ ہماری شخصیت میں مثبث شعاعیں پیدا کر دیتا ہے۔
جھوٹ، فریب، حرص، مرحومی کو باہر نکال پھینکتا ہے۔
آپ نے اپنے اردگرد کوئی نا کوئی ایسا شخص ضرور دیکھا ہوگا۔ یہ شخص بات کرتے وقت گفتگو میں"میں" کا لفظ استعمال نہیں کرتا۔ دوسروں کو توجہ اور اہمیت دیتا ہے۔ کسی کو کوئی فائدہ نا پہنچا سکے مگر نقصان بھی نہیں دیتا۔ کیوں کہ اپنی زندگی سے مطمئن ہو کر نظام قدرت کو سمجھ چکا ہے۔
اس کے بالکل متضاد جائیں۔ آپ کو پچاس سال کے بچے اور ساٹھ سال کے ذہنی کھلنڈرے لوگ بھی نظر آئیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے جذبات اور خواہشات کی تبدیلی کے عمل کو قبول نہیں کیا۔ یہ زندگی بھر مطمئن نا ہو سکے۔ جوانی میں یہ بچہ بننا چاہتے تھے، اور بڑھاپے کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی، اپنے عہد شباب کو یاد کرکے افسردہ ہو جاتے ہیں۔
اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں۔ پر بات کو میں سے شروع کرکے میں پر ختم کرنے والے کتنے ہی لوگ ملیں گے۔ مجھے یہ لوگ بیچارے اور مظلوم لگتے ہیں۔ کیوں کہ یہ دنیاوی لحاظ سے بہت کامیاب اور خوش دکھائی دیتے ہیں۔ مگر ان کا اندر بالکل خالی برتن کی طرح خالی ہے۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی قسمت میں جلنا، کڑھنا اور حسد کرنا لکھ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں عزت، محبت، شہرت، دولت سب کچھ دے بھی دیں۔ یہ مطمئن نہیں ہوتے۔ ان کے گلے شکوے ختم نہیں ہوتے۔
آج کی تحریر میں کسی کا نام نہیں لیا جائے گا۔ مگر دل میں ایک فہرست ترتیب دیں۔ پاکستان کی کئی اہم اور مشہور شخصیات آپ کے سامنے آکھڑی ہوں گی۔ ان شخصیات میں سیاستدان صحافی، شوبز کے لوگ، رائٹرز، شاعر، حضرات شامل ہیں۔ کیوں کہ ان لوگوں کا عوامی رابطہ کسی نا کسی صورت میں ضرور ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے تمام عمل لوگوں کی نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔
یاد رکھیں خوشی اور اطمینان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ ان نعمتوں کو پانے والے کو یہ بات کبھی کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ میں مطمئن ہوں یا مجھے کسی سے کوئی گلہ شکوہ نہیں۔
ان کا عمل، رویہ اور الفاظ ان کے دل کے اطمینان کا بتاتے ہیں۔ یہ میں میں کرنا بند کر دیتے ہیں۔ عمر کے ہر دور میں بدلتے جذبات اور خواہشات کا لطف اٹھاتے ہیں۔ دوسروں کو کامیاب زندگی کے گر بتا کر ان کے دلوں میں ملال پیدا نہیں کرتے۔
رزق، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ تھوڑا یا زیادہ ملے گا یہ رب کی مرضی ہے۔ اس میں کسی کی محنت، ذہانت کا کوئی دخل نہیں۔ آپ کو کیا پتا کس کی دعا کے عوض، کسی نیکی کے صلے میں آپ کو فروانی رزق عطا ہوگیا۔ کیوں کہ یہ آپ کی خواہش تھی، سو پوری ہوگئی۔
عزت اور ذلت بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ عزت بھی اللہ تعالیٰ نے چاہی، سو مل گئی۔
اپنی عمر رفتہ پر نظر دوڑائیں۔ جو مل گیا انعام سمجھ کر شکر ادا کریں۔ وقت کے ساتھ جذبات و خواہشات کو بھی تبدیل کریں۔ اسی میں بھلائی اور خیر ہے۔ ورنہ جلتے، کڑھتے اور تڑپتے رہیں کسی کو کیا فرق پڑے گا؟ نا ہی چلتی ہوا رکے گی۔ ناہی سورج روشنی دینا بند کرے گا۔ کوئی ہو نا ہو نظام کائنات چلتا رہتا ہے۔