Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Aik Pakistani Maa

Aik Pakistani Maa

ایک پاکستانی ماں‎

میں ایک ماں ہوں۔ ایک ڈری، سہمی، متوسط طبقے کی پاکستانی ماں۔ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت اولاد کی صورت میں نوازی۔ جو ان نعمتوں کو سنبھالنے، ان کی تربیت کرنے میں پوری توانائیاں صرف کرتی ہے۔ اپنے رب کے حضور ہر لمحہ گڑ گڑا کر دعائیں مانگتی ہے۔ مگر اس وقت خاموش ہو جاتی ہے، جب اس کا بیٹا گھر آ کر پوچھتا ہے، اماں آپ تو کہتی ہیں، باہر کسی سے لڑائی نا کرو۔ بری بات ہے۔ دو دوست لڑ رہے ہوں تو ان میں صلح کروا دو۔ آج جب میرے دو دوست لڑ رہے تھے تو میں نے انھیں کہا لڑنا بری بات ہے۔ تو وہ غصے سے بولے چل جا اپنا کام کر۔

میں لاجواب ہو کر نظریں چراتی ہوں اور کہتی ہوں، وہ تو گندے بچے ہیں۔ انھیں لڑنے دو، پر آپ نا لڑنا۔

کیا کروں؟ میں ایک ڈری، سہمی، متوسط طبقے کی ماں ہوں۔

میں اپنے بچوں کے سوالوں کے جواب دیتے دیتے تھک چکی ہوں۔ میرے بچے گھر آکر سوال کرتے ہیں۔ اماں آپ تو کہتی ہیں۔ اپنے ملک سے محبت کرو۔ ملی نغمے پڑھا کرو۔ ہمارے ٹیچر تو کہتے ہیں کہ بڑے ہو کر جب موقع ملے، یہ ملک چھوڑ جانا، اس ملک میں کچھ نہیں رکھا۔ یہاں کوئی مستقبل نہیں۔ میں ڈبڈبائی آنکھوں سے بچوں کو دیکھتی ہوں۔ پیار کرتی ہوں اور کہتی ہوں، اس ملک میں سب کچھ ہے۔ سب سے بڑھ کر تم لوگوں کے ماں باپ ہیں۔ کیا ہمیں چھوڑ کر چلے جاؤ گے۔ بچے بے اختیار لپٹ کر کہتے ہیں، ہر گز نہیں ہم آپ کے بغیر کیسے رہیں گے؟ میں اپنی کامیابی پر کھلکھلا کر ہنستی ہوں۔

کیوں کہ میں ایک ماں ہوں۔

ایک ڈری، سہمی، متوسط طبقے کی پاکستانی ماں۔

مگر اس وقت میری پریشانی عروج پر ہوتی ہے۔ جب میرا نوخیز جوانی میں قدم رکھتا بیٹا گھر آ کر کہتا ہےکہ اماں میں خاموش رہتا ہوں، جواب نہیں دیتا، مگر مجھے دکھ ہوتا ہے۔ مجھے اچھا نہیں لگتا، جب ہماری پاک آرمی کو برا کہا جاتا ہے۔ آپ تو کہتی تھیں۔ اپنی فوج سے محبت کرو، شہداء کی تکریم کرو، یہ اللہ کے بعد ہمارے محافظ ہیں۔ میں گھبرا جاتی ہوں۔ بیٹے کو کالی بھیڑوں کے متعلق سمجھاتی ہوں۔ اسے بتاتی ہوں کہ بزدل ہمیشہ پیچھے سے چھپ کر وار کرتا ہے۔ اگر ان میں جرآت ہوتی تو معصوم، کچے ذہنوں کو خراب کرنے کی بجائے ڈٹ کر سامنے کھڑے ہو کر بولتے، اپنی نوکریاں چھوڑ کر بات کرتے، پھر بھی میرے چاند تم صبر کرو، خاموش رہو۔

کیوں کہ تمہاری ماں ایک ڈری، سہمی، متوسط طبقے کی پاکستانی ماں ہے۔

میں پریشان ہو جاتی ہوں، جب میرا معصوم بیٹا آ کر پوچھتا ہےکہ اماں ہماری ذات کیا ہے؟ ہمارا فرقہ کیا ہے؟ مجھ سے میرے دوست نے سوال کیا ہے۔ میرے اندر شدید غصے کی لہر اٹھتی ہے۔ جسے دبا کر قہقہہ لگاتی ہوں۔ پھر لہجہ مضبوط کرتی ہوں اور بیٹے سے کہتی ہوں۔ ہم سچے مسلمان ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ماننے والے، اپنے وطن سے محبت کرنے والے پاکستانی ہیں۔ پڑھائی کے علاؤہ ایسی باتیں نا کیا کرو۔ بیٹا سر ہلا کر چلا جاتا ہے۔ اور میں گہرا سانس لے کر سوچ میں پڑ جاتی ہوں۔

کیوں کہ میں اسی معاشرے میں رہنے والی ایک ڈری، سہمی، متوسط طبقے کی ماں ہوں۔

جو اپنے بچے کو اکیلے خریداری کے لئے بھیجتے ہوئے گھبراتی ہے۔ جو بچوں کو گڈ اور بیڈ ٹچ سمجھاتے ہوئے مضبوط بننے کی کوشش کرتی ہے۔ جو ٹی وی پر بچوں کے ساتھ درندگی کے واقعات کے بارے میں سن کر اپنے آنسو اندر پیتی ہے۔ جسے سیالکوٹ کے دوبھائی بھولتے نہیں، جسے پشاور کا مشال یاد آ جاتا ہے، جو سری لنکن مینجر کو یاد کرکے دکھی ہو جاتی ہے، جسے یوحنا آباد اور جڑانوالہ والے واقعات بھولتے نہیں۔ جو بار بار اپنے بچوں کو سمجھاتی ہےکہ موٹر بائیک یا گاڑی چلانے والا ہم عمر دیکھو تو فورا اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش کرو۔ ان سڑکوں پر بڑے معصوم بے گناہوں کی لاشیں گری ہیں۔ ان کو سزا نہیں ملتی اور وہ رہا بھی ہو جاتے ہیں۔

بس دوسروں کے ماں باپ کی گودیں سونی ہو جاتی ہیں۔ میرے بیٹے اپنی چھوٹی معصوم بہن کو یاد کرکے اداس ہوتے ہیں، تو کہتی ہوں، وہ تو جنت میں ہے، جو دنیا سے بہت بہتر ہے۔ مگر میں یہ کہہ نہیں پاتی کہ میرے پیارے بچوں جب قصور کی معصوم شہزادی زینب تمہاری بہن کے پاس چلی گئی تھی، تو تمہاری ماں نے اس دن سجدے میں جا کر اللہ کے اس فیصلے پر شکر ادا کیا تھا۔ اس ظالم معاشرے میں اگر تمہاری ماں سے کوئی بھول چوک ہو جاتی، وہ اللہ کی رحمت کو سنبھال نا پاتی، تو روز جیتی اور روز مرتی۔ اللہ نے تمہارے بابا اور اماں کو ایک مرتبہ کا دکھ دیا کیوں کہ وہ ہمارا ظرف، ہماری ہمت جانتا تھا۔ وہ جانتا تھا۔۔

کہ میں ایک ڈری، سہمی، متوسط طبقے کی پاکستانی ماں ہوں۔

جو اپنی آخری سانس تک اپنے بچوں کی بقا کی جنگ لڑتے رہے گی۔ جو سوچتی ہےکہ کبھی ایسا پاکستان بنے گا، جس میں اس کے بچے جب گھر سے باہر نکلیں گے، تو کسی جنسی زیادتی، کسی ایکسیڈنٹ کا خوف نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کا ڈر نہیں ہوگا۔ جہاں وہ اپنے بچوں کو پھلتا پھولتا، کامیاب دیکھے گی اور فخر سے کہے گی۔۔

میں کہتی تھی نا، پاکستان ہمارا پیارا ملک ہے۔ اس سے محبت کرو، یہ اس دنیا میں تمہاری پہچان ہے، اپنی پہچان کو فراموش نا کرنا۔

میں نے تم لوگوں سے کہا تھا نا۔۔

Check Also

Haram e Pak Se Aik Ajzana Tehreer

By Asif Masood