9 May Ki Maafi Nahi
9 مئی کی معافی نہیں
جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو سب سے پہلی زیادتی اور پہلا ظلم، عام عوام پر ہوا۔ جنھوں نے پاکستان بنانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا، اپنے اہل وعیال کے خون کی ہولی اپنی آنکھوں سے دیکھی، اپنا گھر، مال و اسباب چھوڈ کر بے یارو مددگار ہجرت کی۔ وہ عام عوام گلیوں، محلوں کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں مر کھپ گئے اور اشرافیہ، خوشامدی طبقہ ملک کو چلانے کے لیے آگے بڑھا اور اقتدار کے سب عہدے ہاتھوں میں لے لیے۔ کہتے پیں ان میں بہت سے خاندان ایسے بھی تھے جو پاکستان بننے کے خلاف تھے۔ مگر بعد میں فائدہ اٹھانے والوں میں سب سے پہلی صف میں کھڑے تھے۔ یعنی اقتدار کی ہوس کا آغاز تب سے ہی شروع ہوگیا تھا۔
پاکستان کے خلاف سازشی عمل کی ابتدا بھی اسی وقت ہوئی۔ اغیار اندرونی غداروں کو ساتھ مل کر ہمہ وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی طرح اس ریاست کو ناکام بنا دیں۔ مگر اللہ ربّ العزت ایسے ہر ناپاک اور مکروہ عمل کو ناکام کر دیتا ہے۔ کیوں کہ جہاں توڑنے والے ہیں وہاں جوڑنے والوں کی بھی بہتات ہے۔
پاکستان سے محبت کرنے والوں کی کمی نہیں۔ اس ملک پر جانیں قربان کرنے والے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کی سلامتی کے لیے ہاتھ اٹھانے والے بھی کم نہیں۔ اسی لیے جب ایک ہجوم نے ایک نام نہاد لیڑر کے دھوکے میں آکر اپنے ہی ملک، اپنی املاک اور پاک آرمی پر حملے کی گھٹیا جسارت کی تو عوام کا شدید ردعمل سامنے آیا۔
نو مئی کا دلخراش سانحہ اس ملک کی تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک بہت سے دلخراش اور ناقابل فراموش سانحے ہوئے۔ جن کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔
ہم ان سانحات پر بعض اوقات کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ اور میڈیا بھی محدود تھا۔ لیکن نو مئی کا سانحہ جس دور میں ہوا، میڈیا، سوشل میڈیا کی بدولت آزادی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ بات منہ سے نکلتی ہے تو اسمارٹ فون کے زریعے ہر بندے تک بڑی آسانی سے پہنچ جاتی ہے۔ معاشرتی نظام بدل چکا ہے۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اپنے دل ودماغ سے فیصلے کرتے ہیں۔ اگرچے اقتدار کا کھیل اب بھی اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے۔ پھر بھی عوام کی محبت، نفرت، رائے اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ اسی لیے سانحہ نو مئی کو عام عوام کسی طور معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اندازہ کریں اس دن صرف ایک نا اہل، ملک کو برباد کرنے والے شخص نے اپنی ذاتی انا کی خاطر ملک کی سالمیت اور عزت کو داؤ پر لگانے کی ناکام کوشش کی۔ عام عوام کو پہلے معاشی طور پر ذلت کے گڑھوں میں پھینکا، پھر ان کی آزادی پر حملہ کیا۔ ملک میں اس طرح بلوہ کروایا گیا، جیسے یہ ملک لاوارث ہے۔ دفاع کو نقصان پہنچانے کے لیے، پاک آرمی اور وردی کی تذلیل کی گئی۔ یہ منظر بھولتے نہیں۔ عام لوگوں، بچوں کے دلوں میں خوف بھر گیا۔ ہم عام عوام جو اپنے ملک کے مضبوط دفاع پر، ایٹمی طاقت ہونے پر فخر کرتے تھے، گھبرا گئے۔ ہمارا یقین ڈانواں ڈول ہوگیا۔
اس دن کیا کچھ نہیں ہوا، پاکستان کے جھنڈے کی بے حرمتی ہوئی، ہمارے محافظوں پر پتھر پھینکے گئے، ملکی تنصیبات کو آگ لگائی گئی۔ چوریاں ہوئیں، وردی کی تذلیل ہوئی، یادگار شہداء کی بے حرمتی ہوئی۔ کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہوا جسے معاف یا بھلایا جاسکے۔
عوام کے ذہنوں پر جو منفی اثرات ہوئے، وہ ایک طرف۔۔ پوری دنیا میں ہمارا تماشا بنایا گیا۔ پاکستانی عوام کے تاثر کو پوری دنیا میں صرف ایک شخص کے لیے پامال کیا گیا۔ دہشت گردوں کے دلوں میں ٹھنڈک ڈالی گئی۔
ایک سال گزر گیا، مگر یہ تکلیف دہ دن ذہن سے محو نہیں ہوتا۔ اس دن کے بعد مجھے احساس ہوا کہ الطاف حسین کی دہشت گرد پارٹی کس طرح کراچی میں اپنے مقاصد پورے کرتی تھی اور وہاں کے عوام کس خوف کے عالم میں جیتے تھے۔
کراچی کو تو الطاف حسین سے نجات مل گئی۔ مگر تحریک انصاف کے نو مئی کے مجرم اسمبلیوں میں ہمیں منہ چڑھا رہے ہیں۔ ملک کی پارلیمنٹ میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ صوبے کی حکومت سے لطف اٹھا رہے ہیں اور ہم عام عوام سوچ رہے ہیں کہ کیا قانون صرف ہمارے لیے ہی اپنی پوری توانائی کے ساتھ حرکت میں آتا ہے۔
1947 سے2024 تک پسنا، ظلم برداشت کرنا صرف ہم عام عوام کا ہی مقدر ہے؟
آخر نو مئی کے ماسٹر مائنڈ اور لوگوں کو اکسانے والوں کو سزا اب تک کیوں نہیں ملی؟ کیا پاکستان صرف تحریک انصاف کے پیروکاروں کا ہے؟ وہ جو چاہے کریں۔ کوئی سزا نا ملے۔ ان لوگوں کو جیل میں سہولتیں ملیں۔ اپنی پیشیوں پر دانت نکالتے ہوئے وکٹری کے نشان بنائیں۔ ماسڑ مائنڈ کو جیل میں گھر جیسی سہولیات میسر آئیں۔ ذہنی آسودگی کے لیے بیوی سے ملاقاتیں کروائی جائیں۔ بہترین کھانا مہیا کیا جائے۔ علاج معالجہ، ایکسرسائز سائیکل، فریج، ٹی وی مہیا کیا جائے۔ خدمت کے لیے مشقتی ملیں تا کہ وہ مزید پر سکون ہو کر اس ملک کی بربادی کے منصوبے بنا سکے۔
صاحب اقتدار کو ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ کس سیاسی جماعت یا خاندان نے پارلیمنٹ میں نو مئی کے مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا؟ اس لیے کہ انھیں اپنے اقتدارِ سے مطلب ہے۔ اپنے خاندان کے ہر فرد کو عہدہ دینے کی فکر ہے۔
عوام کے خوف اور ان کا شعور بھاڑ میں جائے۔ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، صدر، ڈپٹی وزیراعظم سب عہدوں کی بندر بانٹ ہے۔ جنھیں عہدے نہیں ملے وہ نئے الیکشنز کا مطالبہ کر رہے ہیں، جلسے کرکے ملک میں تماشے لگا رہے ہیں۔
عوام کی جیبوں پر الیکشنز کے نام پر پہلے کم ڈاکے مارے جاتے ہیں؟ ان اسمبلیوں کے اجلاس ہر عوام کا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ جہاں سب لوگ بے شرموں کی طرح آپس میں لڑتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کرتے ہیں اور صحافی، صحافت بھول کر سیاستدانوں کے نمک حلال کرنے کی جدو جہد میں مشغول ہیں۔
عوام کو بیوقوف سمجھنا اور بنانا چھوڈ دیں۔ عوام کا خوف یا پرواہ نہیں۔ اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ سے ہی ڈر جائیں۔ عدلیہ اور حکومت وقت سے گزارش ہے کہ نو مئی کے مجرموں کو سزا دلوائیں کیوں کہ ہم عام عوام انھیں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور جس نے انھیں معاف کیا۔ وہ پاکستان کا مجرم اور غدار ہوگا۔