9 May Ka Din Bhulaya Nahi Ja Sakta
نو مئی کا دن بھلایا نہی جاسکتا
نو مئی کا سیاہ دن شاید پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں بھلایا جا سکے گا، کیونکہ اس دن عمران خان کی دو دہائیوں کی محنت رنگ لائی تھی۔ وہ محنت جو انھوں نے نئی نسل کے اندر کے جانوروں کو باہر نکالنے کے لئے کی تھی۔ وہ محنت جو ملک کو تقسیم کرنے کے لئے محروم طبقے کی محرومیوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے کی گئی۔
اپ اس واقعے کے بارےمیں جتنا بھی اور جب بھی سوچیں کوئی نا کوئی نئی بات سامنے آتی ہے۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں لوگوں کی سوچ واضح ہوتی ہے۔ یعنی اس دن صرف وردی کی تذلیل نہیں کی گئی بلکہ خاتون خانہ کے کپڑے بھی چرائے گے۔ قورمہ، اسٹابریز، مور، فائلیں چرانے والے تو اپنی تربیت دکھا ہی رہے تھے۔ مگر ان کا کیا کریں جو ویڈیوز بنا رہے تھے۔ فیس بک پر لائیو دکھا رہے تھے۔ یہ کون لوگ تھے؟ کیا یہ پاکستانی تھے؟
میرا دل نہیں مانتا کہ ان کے دلوں میں اپنے ملک کے لئے کوئی محبت ہے۔ آخر وہ کون ہے جس نے اس نسل کے دل سے پاکستان کی محبت ختم کی؟ انھیں تشدد پر اکسایا اور یہ بتایا کہ ملک اور ملکی ادارے اہم نہیں بلکہ میں اہم ہوں۔ یقینا عمران خان ہی وہ عظیم ہستی ہیں جنھوں نے اس معاشرے کی چولیں ہلا دیں۔
میرے ناقص حساب کے مطابق پچھلی ڈیڑھ دھائیوں سے اس ملک میں برانڈ کا ایک طوفان آیا۔ پہلے برانڈز صرف ایلیٹ کلاس کے لئے ہوتے تھے۔ ملک میں تین طرح کے طبقے تھے۔ جن میں سب سے پرسکون مڈل کلاس لوگ تھے۔ اس کلاس میں تربیت اور مزہب سے محبت کا خوبصورت امتزاج نظر آتا تھا۔ یہاں برانڈز کی ریس نہیں تھی، پھر دجالی میڈیا نے اپنا کام کیا۔ شوبز کو انتہا کا گلیمرائزڈ کیا گیا۔ ڈراموں میں اداکاری کم اور گلیمر، امارت دکھائی دی۔
مارننگ شوز کی بھرمار ہوگئی۔ شادی بیاہ کی بےجا رسومات کا پرچار کیا گیا۔ ٹی وی ہر گھر میں موجود ہے۔ گھریلو خواتین کی تفریح کا سب سے آسان ذریعہ ٹی وی ہے۔ برانڈز کی اس مارکیٹنگ نے سب کے دماغوں پر اٹر کرنا شروع کر دیا۔ مثال کے طور پر ایک عام لان کا سوٹ تین ہزار میں اور برانڈڈ سوٹ سات سے دس ہزار میں اور جو نا خرید سکے۔ اس کا دل میں کہیں نا کہیں قدرت کی تقسیم پر ملال شروع ہوگیا۔ یہ ملال دل و دماغ میں ناسور کی طرح پلتے رہے۔
عمران خان نے انھی دل کے زخموں کو کریدا اور ان میں مزید تکلیف پیدا کی۔ عوام کو بتایا سیاستدان سب کچھ لوٹ کر کھا گئے۔ تم لوگ ان سے اپنا حق چھین لو۔
آپ نے اس لڑکی کی ویڈیو دیکھی جو کور کمانڈر ہاؤس سے فائلز اٹھا کر بھاگ رہی تھی اور اینکرکے استفسار پر بولی یہ ہمارے ہی پیسوں سے آئی ہے، اپ اندازہ کریں، کیسی سوچ ہے؟ اور یہ سوچ پیدا کس نے کی؟ اس نے جو خود ہر روز وزیراعظم ہاؤس میں ہیلی کاپٹر پر آتا جاتا تھا۔ وہ بھی تو ٹیکس کا ہی پیسہ تھا۔ کیا وہ ہیلی کاپٹر عمران خان کے ذاتی پیسوں سے آیا تھا؟ عمران خان خود چشمے سے لے کرجوتوں تک برانڈڈ چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اور خود کو غریبوں کا مسیحا بتاتے ہیں۔ اپنے زمان پارک اور بنی گالا کے گھر کیسے بنے یہ نہیں بتاتے مگر باقی سیاستدانوں ہر الزام تراشی کرتے ہیں کہ ان کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آگیا؟
یہ کیسا شخص ہے؟ کیا یہ ایک نارمل انسان ہے؟ یہ کس طرح ہمارا حکمران بن گیا تھا؟ سوچنے لگو تو دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے۔ عمران خان آپ نے ظلم کیا ہمارے جوانوں پر، آپ نے ان کے اندر کے درندے باہر نکالے۔ ان کی محرومیوں کو استعمال کیا۔ آخر اس سب کے بعد آپ کو کیا ملا؟
اقتدار کی کیسی ہوس تھی؟ یہ کیسا جنون تھاکہ عمران خان آپ نے اس ملک کو ایسا بنا دیا کہ آج آپ اپنے بچوں کے لئے یہاں خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ آج آپ اپنے لئے محفوظ راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ خود سے اتنی محبت کہ سب کچھ قدموں تلے روند کر آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں۔
ہماری پاک آرمی جس کی محبت ہر پاکستانی کے دل میں موجود ہے۔ آپ نے اس پاک فوج کو داغ لگانے کی کوشش کی۔ آپ کو نو مئی کے تماشے کرتے وقت ایک لمحے کے لئے بھی اپنے ملک کی تکریم کا احساس نا ہوا؟ آپ نے سوچا نہیں ہمارے دشمن کتنا خوش ہو رہے ہوں گے۔
کیا ہونا تھا اگر آپ گرفتار ہو جاتے؟ کیا آپ کا کیس نا چلتا یا آپ کو ضمانت نا ملتی؟ کون سے سرخاب کے پر تھے جنھیں نقصان پہنچ جانا تھا۔ کتنے خاندانوں کو تکلیف پہنچائی اور ملک کا کتنا نقصان ہوا۔ اس کا ازالہ کیا عمران خان کر پائے گا؟
جب تک سانحہ نو مئی کے مجرموں، سہولت کاروں، منصوبہ سازوں کو سزا نہیں ملے گی۔ ایک عام پاکستانی کے دل کو سکون نہیں آئے گا اور اگر ایسا جلد ناہوا تو یاد رکھیں۔ ہم ایسے مزید یوم سیاہ مناتے رہیں گے۔