Maa Tumhe Sab Pata Hai
ماں تمہیں سب ہے پتہ
وقت کا پہیہ بہت تیزی سے گھوم جاتا ہے۔ زندگی کے سٹیج پر ہم سب اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے آج سے کبھی خوش نہیں ہوتا۔ بچپن میں دل و دماغ والدین کی روک ٹوک اور پابندیوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔ جوانی میں دل من مانی اور بغاوت پر اکساتا ہے۔ بڑھاپا مختلف جسمانی اور نفسیاتی مسائل سے الجھنے میں گزر جاتا ہے۔ لیکن ایک دور سے گزر کر دوسری منزل پر پہنچ کر لگتا ہے، کہ جو پل گزر گئے وہ بہت قیمتی تھے۔ شاید اس احساس کی وجہ یہ ہے جو وقت بیت جائے وہ کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔
اس دنیا میں آنکھ کھولنے والا بچہ ایک پودے کی طرح ہوتا ہے، اسے پروان چڑھانے کے لئے والدین اپنے خون جگر سے اس کی آبیاری کرتے ہیں۔ ماں اور باپ کا کردار یکساں اہم لیکن قدرے مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔ باپ کی شفقت کا سائبان بچوں کے سر پر تن کر زمانے کے سرد و گرم سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسے زندگی کی اونچ نیچ سے نمٹنے کے گر سکھاتا ہے۔ جب کہ ماں غیر مشروط محبت اور قربانی کی مثال ہے۔ باپ کا سائبان نہ ہو تو یہی ماں اپنے اندر اتنی طاقت لے آتی ہے کہ تن تنہا زمانے کی بے رحم آندھیوں سے لڑ جاتی ہے۔ ان ننھے منے ہاتھوں کو اس مضبوطی سے تھام لیتی ہے، جو انہیں بھر پور تحفظ کا احساس دے۔ اپنے بچوں کو کسی مقام تک پہنچانے کے لئے جان کی بازی لگا دیتی ہے۔ انہیں ماں باپ دونوں کا پیار دیتی ہے، ان کے اعتماد میں کوئی کمی نہیں آنے دیتی۔ انہیں دنیا میں سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔
ماں جب ٹی وی بند کرکے ہاتھوں میں کتابیں تھما دیتی ہے، تو ہرگز اچھا نہیں لگتا۔ ماں جب امتحان کے دنوں میں دوستوں کے ساتھ کھیلنے یا گھومنے پھرنے سے منع کرتی ہے۔ تب بھی دل کو سمجھانا پڑتا ہے۔ کالج یا یونیورسٹی کے تفریحی دوروں پرجانے کی اجازت مانگو، تو ماں کا دل وسوسوں کا شکار ہوتا ہے۔ اور اکثر جواب نفی میں ہی ملتا ہے۔ کسی دوست یا سہیلی کے گھر آنے یا اس کے گھر جانے پر ماں کبھی تو اس کا شجرہ نسب بھی پوچھ لیتی ہے۔ لیکن یہ سب وہ ہماری محبت اور بھلائی ہی میں تو کرتی ہے، جس کا ادراک بہت بعد میں ہوتا ہے، اور ہمیں بھی ہوا۔
ماں اگر پاس نہ بھی ہو تو خوشی وغمی کے موقع پر وہ دل میں یاد بن کر ابھرتی اور آنکھ میں آنسو بن کر چمکتی ہے۔ کسی کامیابی پر ماں کا دمکتا چہرہ اور ناکامی کی صورت میں ماں کا حوصلہ دینا اور آنسو پونچھنا اس کی بے لوث محبت کا عکس ہے۔ جب آپ کو ہر جگہ سے نا امیدی کا سا منا ہو، اور آگے بڑھنے کی کوئی راہ نظر نہ آرہی ہو، تو پھر بھی ایک ماں کا یقین کبھی نہیں ڈگمگاتا اور یہی یقین آپ کو اس کڑی محنت اور استقامت کی طرف لے جاتا ہے جو آپ پر کامیابی اور قسمت کے سب بند دروازے کھول دیتی ہے
کس کے چہرے پہ تراشوں تیرے چہرے کی جھلک
کس کے آنچل میں ملے گی تیری ممتا کی مہک
کس کی باتوں میں سنوں گی تیرے لہجے کی کھنک
کس ستارے میں بسے گی تیری آنکھوں کی چمک
ڈھونڈتی ہوں عکس تیرا، ماں تیرے جانے کے بعد
دل میں وحشت کا بسیرا، ماں تیرے جانے کے بعد
ہم سب بہن بھائی بےحد خوش نصیب ہیں، کہ ہماری تعلیم و تربیت کا کٹھن فریضہ امی جی نے پوری لگن اور ایمانداری کے ساتھ انجام دیا۔ بچپن ہی میں والد صاحب کی وفات کے بعد امی جی کی انتھک محنت اور بے لوث محبت کو ہم کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ ہمارے لئے ان کی آنکھوں نے جو خواب دیکھے، انہوں نے اپنی پوری توانائی سے انہیں تعبیر کرنے کی کوشش کی اور بفضل خدا تعالی کامیاب بھی ہوئیں۔ ہماری تربیت میں ہمیشہ ڈسپلن اورحد درجہ احتیا ط پسندی سے کام لیا، ان کے پیار کی گھنی چھاؤں میں ہم بے فکر ہو کر پھلتے پھولتے رہے۔ ہماری ضد اور شرارتوں پر بھی وہ خفگی کا اظہار نہیں کرتی تھیں۔
خدا تعالی نے انہیں حلیمانہ، کم گو اور برد بار طبعیت عطا کی تھی۔ مزاج بہت سادہ تھا۔ ان کی سادگی، کم گوئی اور شائستگی ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ اپنے لئے ہمیشہ سادہ خوراک اور سادہ لباس کو ترجیح دیتیں۔ لیکن ہمارے کھانے پینے کا بھرپور خیال رکھتیں۔ دینی کتب کے ساتھ امور صحت سے متعلق رسائل اور مضامین کا مطالعہ کرتیں۔ ان کی ذات میں بناوٹ اور دکھاوا قطعا نہیں تھا۔ وہ ہمارے ساتھ نہیں، لیکن ان کی شفقت اور دعاؤں کا حصار ہم آج بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ انہی کا سکھایا ہوا سبق عملی زندگی کے ہر موڑ پر ہماری رهنما ئی کا سبب بنا۔ ہم زندگی میں سر اٹھا کر جیے، تو وہ ہمارا فخر ہیں۔ ہم عملی طور پر جو بھی کچھ کر پائے، جو بھی بن پائے، وہ سب ان کی ہی کاوشوں کا نتیجہ ہے
اس شام کی حدت میرے دل سے نہیں جاتی
جس روز تیرا سایہ میرے سر سے اٹھا تھا