1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Khud Se Milte Rahiye

Khud Se Milte Rahiye

خود سے ملتے رہیے

زندگی میں ہم بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں۔ کچھ کو جاننے اور پرکھنے کے بعد ہم اپنے دوستوں میں شامل کر لیتے ہیں۔ ہم اپنے عزیز و اقارب اور بیرونی حالات و واقعات سے بھی باخبر رہنا چاہتے ہیں۔ آج کل کی نوجوان نسل اپنے لائف پارٹنر کے حوالے سے کافی کچھ جاننا ضروری سمجھتی ہے، تاکہ اس کے ساتھ زندگی اچھی طرح سے گزاری جاسکے۔ اس سارے تانے بانے میں ہم ایک سب سے اہم جانکاری نظرانداز کر جاتے ہیں جو کہ خود ہمارے بارے میں ہے۔ کیا ہم خود کو اچھی طرح سے جانتے یا سمجھتے ہیں؟ کیا ہم کبھی اس کی کوشش بھی کرتے ہیں؟

آپ کون ہیں؟ نام پتہ کیا ہے؟ کس جگہ رہتے ہیں؟ تعلیمی قابلیت کتنی ہے؟ ذریعہ معاش کیا ہے؟ اکیلے ہیں، یا فیملی والے ہیں؟ آپ کے مشاغل کیا ہیں؟ معاشرتی طور پر یہ وہ سوالات ہیں، جو ہم کسی کو جاننے کے لئے پوچھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن آپ خود کون ہیں؟ یا پھر میں کون ہوں؟ ان ظاہری سوالات سے پرے کہیں بہت کچھ ہے جسے ہم نے کبھی کھوجنے کی کوشش ہی نہیں کی، یا پھر وقت نہیں ملا۔ کیا ہمارا بیرونی تعارف اندر سے بہت مختلف ہو سکتا ہے؟ کیا ہم آج اس وقت وہ ہیں، جو ہم نظر آتے ہیں؟

کیا زندگی میں سب آسانیاں اور رشتے موجود ہوتے ہوئے آپ کا دل چاہتا ہے کہ ایک backpack اٹھائیں، اور کہیں دور نکل جائیں؟ کیا آپ کا دل چاہتا ہے کہ دنیا کے شور شرابے اور کام کی جھک جھک سے پرے کچھ وقت اپنے ساتھ بتائیں، جہاں صرف چند کتابیں اور آپ ہوں۔ کیا آپ کا بیزار کن رویہ آپ کی ذات اور زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ لیکن آپ نہیں جانتے کہ یہ کیوں ہو رہا ہے؟ تو یقین رکھیں کہ ان تمام سوالات کے جوابات صرف اور صرف آپ کے پاس ہی ہیں جس کے لئے آپ کی خود سے ملاقات بہت ضروری ہے۔

خود آگاہی اس لئے اہم ہے کہ اس کے بغیر آپ زندگی میں کوئی بھی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ کوئی انسان بھی خامیوں سے پاک نہیں، اپنی کسی خامی یا کمزوری کی نشاندہی کرکے ہی آپ اسے دور کر سکتے ہیں۔ اس لئے پہلے اسے جاننا اور پھر ماننا بہت ضروری ہے۔ اسے ماننے سے انکار مت کریں ورنہ آپ اسے سدھار نہیں پائیں گے۔ خود کو جانا کیسے جائے؟ اس کے لئے اپنے ساتھ خاموشی سے کچھ وقت بتانا ضروری ہے۔ لیکن ہم اس قدر شور کے عادی ہو چکے ہیں کہ ذرا سی خاموشی بھی ہمیں ڈرا دیتی ہے۔ بقول سقراط

To know the self is the beginning of wisdom

جب ہم خود کو تھوڑا سمجھنا شروع کرتے ہیں تو ہمارے اندر اور باہر کی دنیا متضاد نہیں رہتی۔ ہم خود سے نہیں لڑتے۔ ہم وہی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہم ہیں۔ ہماری ذات کا ریموٹ کنٹرول دوسرے کے بجائے ہمارے اپنے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ ہم کسی منفی بات پر بری طرح سے react نہیں کرتے۔ ایک ہی بات کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کے قابل بنتے ہیں۔ آپ سمجھ جاتے ہیں کہ آپ کو ہر وقت دوسروں کو خوش کرنے ضرورت نہیں۔

ہم سماجی رویوں کو بہتر کنٹرول کر سکتے ہیں۔ خود شناسی کامیابی کی طرف پہلا قدم ہے۔ آپ میں کتنی صلاحیتیں ہیں، یہ دنیا کو منوانے سے پہلے آپ کو خود جاننا اور ماننا ہے۔ لوگ بعد میں آتے ہیں۔ ہر شخص کا آئن سٹائن ہونا ضروری یا ممکن نہیں۔ آپ کا کوئی ہنر یا کوئی اچھی بات آپ کا تمغہ یا میڈل ہو سکتا ہے۔ ہر شخص دوسرے سے مختلف ہے اور یہی مختلف ہونا بہت اہم ہے۔

بلجے شاہ انسان کی اپنے بارے میں کم علمی کے بارے میں کہتے ہیں

پڑھ پڑھ علم ہزار کتاباں

کدی اپنے آپ نوں پڑھیا نئیں

ہم کچھ عرصہ کی دوستی اور اکثر تو چند ملاقاتوں کے بعد ہی کسی کے بارے میں کافی کچھ جان لینے کا دعوی کر دیتے ہیں۔ ہمیں خود کو جاننے سے زیادہ دوسروں کی کھوج میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ خود آگاہی کا سفر بہت کٹھن ہے۔ کبھی ہماری "میں" اس میں رکاوٹ بنتی ہے تو کبھی ہماری ضد اور انا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ خود آگاہی کا سفر بھی ہمارے ساتھ ہی ختم ہوتا ہے۔ خود شناسی ہی معرفت الہی کا ذریعہ ہے۔ خود کو نہیں جانیں گے تو اپنے رب کو کیسے پہچانیں گے؟ کیوں کہ خداوند کریم بھی تو ہمارے ہی اندر بستے ہیں اور ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔

خود کو مکمل طور پر جاننا اور سمجھ لینا تو شاید ممکن نہیں لیکن گاہے بگاہے خود سے ملاقات ہوتی رہنے چاہیے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے

کچھ اس میں تمسخر واللہ نہیں ہے

Check Also

Zuban e Haal Se Ye Lucknow Ki Khaak Kehti Hai

By Sanober Nazir