Hum Aur Nizam e Qudrat
ہم اور نظام قدرت
آج کل COVID19 کی وجہ سے سوشل لائف تقریباََ ختم ہو چکی ہے۔ شاپنگ سنٹرز یا سٹورز کے علاوہ اکثر فیملیز لانگ ڈرائیو پر نکل جا تیں ہیں۔ کچھ دن پہلے ہم بھی نکلے، تو بیٹی نے ملٹن میں اپنی جائے پیدا ئش دیکھنے کی فرمائش کی۔ سو وہیں کا قصد کیا۔ ملٹن کی گلیوں سے گزرے، تو جیسے ماضی کے بند دریچے ایک ایک کر کےکھلنے لگے، اور ان دریچوں میں سے کئی یادیں ابھرنے لگیں۔ 2002 سے لے کر2007 تک ہم ملٹن میں مقیم رہے۔ مسی ساگا جیسے پر رونق علاقہ سے جب ملٹن کا رخ کیا، تو پہلی قابل ِذکر چیز وہاں کی خاموشی اور نسبتا ََکافی کم ٹریفک تھی۔
کبھی تو اس خاموشی سے جی بھی گھبراتا، لیکن پھر اسے چینج مینجمنٹ سمجھ کر ٹال دیتے۔ اس کے بر عکس گھر کے اندر ماشااللہ کافی ہنگامہ رہتا، کیوں کہ تین چھوٹے بچوں کا ساتھ تھا اور صرف بیٹا کنڈر گارٹن جاتا تھا۔ اسی کو سکول بس میں چھوڑنے اور لینے کی وجہ سے بس سٹاپ پر دوسرے والدین سے بھی ملاقات ہو جاتی۔ ہمارے ہمسایوں میں تقریبا سب کینیڈ ین فیملیز ہی تھیں۔ انہوں نے ہماری آمد پر خوش آمدید کہا، اور اپنا تعارف کروایا۔ ہر گھر میں دویا تین بچے تھے، خواتین گھر پر بچوں کے ساتھ ہوتیں، شام کو سب کچھ دیر کے لئے باہر نکلتے، اور سرِشام ہی ڈنر وغیرہ کر کے جلدی سو بھی جاتے تھے۔
جس کا اندازہ گلی میں ان کے گھر کی بند لائٹس سے ہو جاتا۔ کچھ دنوں کے بعد صبح بس سٹاپ پر بیٹے کو چھوڑنے گئی، تو وہاں ایک سا دہ اور پر کشش چہرے والی، با حجاب خاتون اپنے بیٹے کے ساتھ جو گریڈ فائیو کا معلوم ہو رہا تھا، کے ساتھ موجود تھیں۔ ہم دونوں ہی مسکراہٹ لیئے ایک دوسرے کی طرف بڑھیں، اورایک دوسرے سے اپنا تعارف کروایا۔ یہ میری سائرہ سے پہلی ملاقا ت تھی۔ سائرہ ہمارے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر شوہر اور چار بچوں کے ساتھ رہتیں تھیں۔ بس سٹاپ پر روزانہ ہونے والی ملاقات دوستی میں بدل گئی۔ اور مجھے سائرہ کو جاننے کا موقع ملا۔
سائرہ کینڈا میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ان کے کافی رشتہ دار یہیں تھے۔ وہ بہت خوش اخلاق، سادہ اور محبت کرنے والی عورت تھیں۔ مذہب سے خاص لگا ؤ تھا۔ چھوٹی سی عمر میں ہی وہ اپنی ماں سے محروم ہو گئیں تھیں، والد کی دوبارہ شادی سے گھر تو آباد ہو گیا تھا لیکن سائرہ کے دل میں ماں کو کھو دینے کا زخم موجود تھا۔ کم عمری میں ہی سائرہ کی شادی ہو گئی۔ ہر مہذب اور بااخلاق گھر میں میاں بیوی کے درمیان عزت واحترام کا رشتہ ہوتا ہے۔ سائرہ کا ایک پیارا سا انداز یہ بھی تھا کہ، وہ اپنے شوہر کو منصورصاحب کہتیں۔
ہم دونوں ہی اپنے گھروں میں بے حد مصروف تھیں، لیکن کبھی کبھار فیملیز کی ملاقات ضرور رہتی۔ سائرہ بہت محبت اور خیال رکھنے والی بیوی اور ماں تھیں۔ شوہر اور بچوں کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کی فکر کرتیں۔ زندگی آگے بڑھتی رہی۔ پرانے دوستوں میں سے ایک اور فیملی ملٹن آچکی تھی۔ ان سے بھی ملاقات رہتی اور بچے خوب دھمال مچاتے۔ 2007 میں ہم نے سعودی عرب نقل مکا نی کا فیصلہ کیا، سائرہ سن کر اداس ہوئی۔ اب پانچ سالوں کے مانوس، ملٹن کو چھوڑنے کا وقت تھا۔ پرانے دوستوں کے ساتھ ساتھ، ملٹن نے ہمیں ایک اور خوبصورت اور پرخلوص فیملی سے متعارف کروا دیا تھا۔
سعودی عرب کے تین سالوں میں پرانے دوستوں سے رابطہ رہا۔ وہاں جا کر پھر سے زندگی کے معا ملات اور مصروفیات شروع ہو گئیں۔ پھر ایک دن ایک دل دہلانے والی خبر سنی۔ سائرہ کا بڑا بیٹا چوبیس سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔ وہ اپنے دوست کے ساتھ کیوبا گیا تھا، جہاں سمندر کی بپھری اور بےرحم موجیں اسے زندگی سے بہت دور بہا لے گئیں۔ سائرہ کی فیملی پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ لیکن خدا کی رضا کے آگے سر کو جھکانا ہی ہمارا ایمان ہے، سائرہ کی دعائیں اس کے بیٹے کو واپس اس کے پاس لے آئیں اور اسکی فیملی نے اپنے ہاتھوں سے اسے خدا کو سونپ دیا۔
کینڈا واپس آ کر سا ئرہ کی فیملی سے ملنے گئے۔ ان کا دکھ بڑا تھا اور ہمارے پاس الفاظ کم تھے۔ ایک ماں کے دل کو کسی طور قرار نہ تھا۔ پھر سائرہ سے بات اور ملاقات ہوتی رہی۔ ایک روز سائرہ نے اپنی جان لیوا بیماری لیور کینسر کے بارے میں بتایا، قدرت کو ابھی اور امتحان منظور تھا۔
پھر یہ ہوا کہ صبر کی انگلی پکڑ کہ ہم
اتنا چلے کہ راستے حیران رہ گئے
سا ئرہ کو اپنے جانے کا دکھ نہیں تھا، کیوں کہ وہ صابرین میں سے تھی۔ رنج اور ڈر اس بات کا تھا کہ، شا ید وہ اپنی بیٹیوں کو اپنی دعا ؤں کی چھاؤں میں رخصت نہ کر سکے۔ ہر ماں کی آ نکھیں اپنی بیٹی کے مستقبل اور شادی کےحوالے سے بہت سے خواب دیکھتی ہیں۔ سائرہ ان سپنوں کے ٹوٹنے سے ڈرتی تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹیاں اپنے پیروں پر کھڑی ہوں، اور ان کی شادیاں کینڈا میں ہی ہوں۔ انہیں خوف تھا کہ رشتہ داروں اور خا ندان کے دباؤ میں آ کر، ان سے بحیثیت والدین کوئی غلط فیصلہ نہ ہو جائے۔
لیکن اس معاملے میں سائره کی سوچ اور حکمت عملی انتہائی دانش مندانہ تھی۔ وہ پاکستان سے آنے والے ہر اس رشتے کے خلاف تھی، جو کینڈا آنے کے لیئے شادی کو ذریعہ بنانا چاہتا ہو۔ میں اسے خدا پر بھروسہ رکھنے اور پرامید رہنے کا کہتی، اور وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچ کر دکھی ہو جایا کرتی۔ میں سوچتی رہ جاتی کہ رشتوں کی ڈور ہمیں جتنا مضبوط بناتی ہے، ان کو چھوڑ کر جانے کا احساس اتنا ہی کمزور بھی کر دیتا ہے۔ سائرہ کی فیملی اس کی اصل طاقت تھی۔ منصور صاحب اور بچوں نے اس کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔
بہت سے ڈاکٹرز اور ہسپتالوں سے رابطہ کیا گیا۔ سب کی متفقہ تجویز کے بعد، سائرہ کو گھر پر ہی رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ ہم وقتا ََفوقتا ََسائرہ سے ملنے جاتے، وہ کمزور ہوتی جا رہیں تھیں۔ آخری ملاقات پر بھی وہ مسکرا کر ملیں۔ خدا نے انہیں تکلیف کے ساتھ، برداشت اور صبر بھی عطا کر دیا تھا۔ ان کے گھر سے نکل کر اپنے گھر پہنچنے تک، ہم دونوں خاموش تھے۔ یہ ہماری سائرہ سے آخری ملاقات تھی۔ کچھ مہینوں بعد سائرہ کینسر سے جنگ میں ہار گئیں، ہم ان کے سفرِِ آخرت میں شریک ہوئے۔ وہ اپنی فیملی کے لئے دعائیں، بےشمار محبت بھری یادیں اور ان کے لیئے دیکھے گئے کچھ ادھورے خواب چھوڑ گئیں۔
چند سالوں کے بعد، ایک شاپنگ مال کے فوڈ کورٹ میں ایک معصوم اور شناسا چہرہ نظر آیا۔ ہم دونوں بے حد محبت سے ملیں، اس نے بچوں کے بڑے ہونے پر حیرت کا اظہار کیا۔ یہ سائرہ کی چھوٹی بیٹی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے آفس سے بریک کے دوران لنچ کرنے آئی ہے۔ میں نے سب کی خیریت پوچھی، معلوم ہوا کہ بڑی بیٹی تعلیم مکمل کرکے ایک سکول میں ٹیچر ہے۔ چھوٹا بیٹا ابھی زیر تعلیم ہے اور منصور صاحب اپنے کاروبار میں مصروف ہیں۔ ہم نے فون نمبرز کا تبادلہ کیا۔ سائرہ کا ایک خواب پورا ہو جکا تھا۔ تھوڑا وقت اور گزرا، پھر ایک دن ہمیں سائرہ کی بڑی بیٹی کی شادی کا کارڈ ملا۔
ہم نے شادی کی تقریبات میں شرکت کی۔ کچھ سال گزرے، تو چھوٹی بیٹی کی شادی بھی بخیر وعافیت انجام پائی۔ جب پروجیکٹر پر فیملی کی تصویریں دکھائی جا رہی تھیں، تو سائرہ کو دیکھ کر کئی آنکھیں نم تھیں۔ لیکن میں نے سائرہ کو وہاں محسوس کیا۔ آج اس کےدوسرے اور آخری خواب کی تکمیل ہو گئی تھی، اس کی دعائیں باریاب ہو گئیں۔ اس کی دونوں بیٹیاں کینڈا میں اپنے گھروں میں فیملی کے ساتھ بہت خوش ہیں۔ منصور صاحب کی بھی شادی ہو چکی ہے۔ ان کے بچوں کی خوشی اور رضامندی کے ساتھ ہی یہ فیصلہ ہوا۔ وہ اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
موت تو جسم کی ہوتی ہے، رشتوں اور احساسات کی نہیں۔ سائرہ کی اپنی فیملی سے بےلوث محبت کی یادیں آج بھی زندہ ہیں۔ کبھی سوچتی ہوں کہ شاید ہم اپنی زندگی میں کچھ معاملات کے بارے میں سوچ کر پریشان رہتے ہیں، حالانکہ وہ ہمارے اختیار اور گرفت میں نہیں ہوتے۔ یا پھر ہم صحیح وقت کے انتظار میں بے چین ہو جا تے ہیں۔ بےشک ربّ کریم، ہماری سب مشکلوں سے واقف ہیں اور وہی ہمارے لیئے آسانیاں اور راستے پیدا کرتے ہیں۔