Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Hassas Rishte

Hassas Rishte

حساس رشتے

گھر کے آنگن میں لمبا گھونگٹ کاڑھے یا کم از کم سر پر کس کر دوپٹہ جمائے ادب آداب، رکھ رکھا ؤ والی، کم گو بہو جو تمام سسرالی ذمہ داریوں کا بو جھ ہنسی خوشی اٹھا لے، مثالی بہو کہلائی جاتی تھی۔ کل تک ماں باپ کے آنگن میں چڑیا کی طرح چہکنے والی بیٹی، بہو بنتے ہی کتنی بدل جایا کرتی تھی۔

ساس سسر کے منہ سے تعریف یا صرف دو میٹھے بول سن کر ہی اپنی ساری تھکن اور گلے شکوے بھول جایا کرتی تھی۔ کبھی کسی محفل یا تقریب میں لڑاکا اور بدزبان بہوؤں کا رونا بھی سننے کو ملتا تھا۔ کہیں مائیں اس بات کو لے کر پیٹتی تھیں کہ ہم نے تو بہو گھر لا کر اپنا بیٹا ہی کھو دیا، تو کہیں بہو سخت گیرسسرال کے آگے بے بس اور لاچار نظر آتی۔ یوں سمجھیے، کہ ہر گھر کی ایک الگ کہانی۔

وہ گھرانے مثالی سمجھے جاتے، جہاں روزمرہ کی جھک جھک کے بجائے پیار اور عقل مندی سے وقت گزارا جاتا، بات کا بتنگڑ بنانے کے بجائے نظر انداز کرنے کو ترجیح دی جاتی، ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہ کی جاتی۔ یہ بھی سچ ہے کہ ایسے گھرانوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ کیوں کہ آخر کار ہم سب انسان ہی تو ہیں۔ جب بھی لوگ اکٹھے رہتے ہیں تو سانجھ کی ہانڈی تب ہی پکتی ہے جب اسے سمجھداری، صبر اور برداشت کی آنچ دی جائے۔

جلد بازی، بد زبانی اور مقابلہ بازی کی چنگاریاں اسے جلا کر راکھ کر دیتی ہیں۔ یہ تو کچھ دہائیاں پہلے کے حالات ہو گئے، اس حوالے سے مسائل آج بھی ہیں، لیکن ان کی نوعیت بدل چکی ہے۔ حال میں ہی کچھ ایسے والدین سے ملنے کا اتفاق ہوا جنہوں نے اپنے بچوں کی شادیوں کا فریضہ انجام دیا۔ کچھ کو کینڈا ہی میں مناسب رشتے مل گئے، جبکہ کچھ نے پاکستان میں مقیم فیملیز کے بچوں کا انتخاب کیا۔ اور اس دن گفتگو میں زیادہ تر شادی کے بعد کے مسائل کا ذکر بھی ہوا۔

آج کل کی جنریشن زیادہ تر شادی کے بعد اپنے الگ گھر میں رہنا پسند کرتی ہے۔ اس حوالے سے برسر روزگار ہوتے ہی وہ اپنی پلاننگ بھی شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ کچھ لڑکے اپنے والدین کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ خواہ کینڈا ہو یا امریکہ، جوائنٹ فیملی سسٹم کی اصل روح کو نظر انداز کر دیا جائے تو مسائل سر ابھارنے لگتے ہیں۔ کوئی ایک فریق ظالم نظر آتا ہے تو دوسرا مظلوم۔ لیکن جن گھروں میں توازن برقرار ہے، وہاں صورتحال خوشگوار ہے۔

وقت بدل چکا ہے، تہذیب و تمدن کے اطوار بدل گئے۔ آج کی بیٹی اور بہو گھر کی دنیا سے باہر قدم رکھ کر اپنی صلاحیت منوا چکی ہے۔ آج ہماری خواتین زندگی کے مختلف شعبہ جات میں پر اعتماد اور باوقار طریقے سے کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہر فرد کی اپنے لائف پارٹنر کے حوالے سے مختلف ترجیحات ہوتی

ہیں۔ کچھ لڑکے اپنے لئے خود مختار اور پڑھی لکھی لڑکی کا انتخاب کرتے ہیں، جبکہ کچھ اپنی بیوی کو ہاؤس وائف کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملازمت پیشہ بہو کو دو محاذوں پر لڑنا ہوتا ہے یعنی گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ جاب کے مسائل بھی نپٹانے ہوتے ہیں۔

اس صورتحال میں اگر شوہر اور سسرال عدم تعاون کا مظاہرہ کریں تو زندگی مشکل بن جاتی ہے۔ جہاں بہو کو صبح افراتفری میں ملازمت پر پہنچنے کی جلدی ہو، یا تیار ہو کر آن لائن کام کرنا ہو۔ وہاں یہ گلہ کرنا بے معنی ہے کہ بہو کو تو میاں یا ہمارے ناشتے کا کوئی خیال نہیں، پراٹھے اور چائے تو کبھی بنے ہی نہیں۔ حالانکہ بہو کے آنے سے پہلے بھی گھر کا نظام اچھے طریقے سے چل رہا ہوتا ہے۔

اگر صبح کے اس افراتفری کے وقت میں گھر کا کوئی اور فرد ناشتہ بنا لے اور بہو کو ڈنر کے معاملات سونپ دیے جائیں یا چھٹی والے دن بہو ناشتہ کا اہتمام کر لے تو اس طرح بدمزگی کا امکان کم ہو جائے گا۔ معذرت کے ساتھ لکھنا چاہوں گی کہ بہت سی صحت مند خواتین صرف اس بات پر کام کاج سے ریٹائر منٹ لے لیتی ہیں کہ اب بہو آگئ ہے تو ہمیں آرام کرنا چاہیے۔ جو کہ ایک منفی سوچ ہے۔ جب تک خدا تعا لی ہمت عطا فرمائیں، کام کرتے رہنا چاہیے۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کچھ لڑکیاں خود کام کر نے کو عار سمجھتی ہیں اور تمام عمر سسرال میں مہمان بن کر گزار دینا چاہتی ہیں۔۔ اور اگر الگ بھی رہیں تو اپنے ہی گھر میں دلچسپی نہیں لیتیں۔ مکان کو گھر میں بدلنے کیلئے روپے پیسے کے ساتھ توجہ اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سی مائیں گلہ کرتی ہیں کہ ہماری بہو نے آکر بیٹا چھین لیا۔ انسانوں پر اپنے مالکانہ حقوق جتانا ایک بیمار رویہ ہے۔ جب تک سوچ اور دل میں وسعت پیدا نہ کی جائے، بڑے گھر بھی چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔

گھر میں آنے والی نئ بہو کا کشادہ دلی سے استقبال اور اس کی طرف سے سسرال والوں کے لئے احترام زندگی کو آسان بنا دیتا ہے۔ ہم اپنے بچے کی غلطی یا لاپرواہی کو ہنس کر نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن بہو کے لئے رویوں میں کبھی روایتی پن تو کبھی انا غالب آجاتی ہے۔ اسی طرح بیٹی ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ کو ہنس کر بھول جاتی ہے۔ لیکن سسرال کے کڑوے الفاظ اسے تا حیات یاد رہتے ہیں، اور وہ شوہر کو بھی دن، تاریخ اور موقع کے ساتھ یاد کرواتی رہتی ہے۔

اسلئے ان رشتوں کی حساسیت کے پیش نظر کوشش کریں کہ چھوٹی اور غیر اہم باتوں کو اپنی زندگی میں اہمیت دے کر گھر کا اور اپنا سکون خراب مت کریں۔ اچھا کہیے اور اچھا سنیے، خود بھی خوش رہیے اور دوسروں کو بھی خوش رہنے دیں۔ ہمارا مذہب بھی ہمیں خوش گفتاری کی ہدایت کرتا ہے۔

تلخ لہجے اور انا کے باعث اپنا شملہ اونچا رکھنے والے لوگ آخر میں تنہا ہی رہ جاتے ہیں۔ اپنے لئے عزت و احترام کی حد خود متعین کیجئے، بہو کے طور پر آپ کے گھر میں آنے والی کسی کی بیٹی بھی آپ کی طرف سے محبت اور عزت کی حقدار ہے۔ کھلے دل سے اس کا استقبال کریں۔ تاکہ ان رشتوں کی خوبصورتی ہمیشہ قائم رہے۔

کسی کے تلخ لہجے پر حلاوت ہو گئ ہم سے

انا حیران ہے اب تک، کرامت ہو گئ ہم سے

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal