Bewafai
بےوفائی
وقت کے ساتھ وفاداری کے پیمانے بھی بدل گئے۔ جو ساتھ کبھی مر کر ہی چھوٹا کرتے تھے، وہ آجکل دھوکے، یا بےوفائی کی نذر ہو کر پل میں ختم ہو جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بےوفائی کو برا نہیں سمجھا جاتا، یہاں ہر کوئی اپنی مرضی کرتا نظر آتا ہے۔ راستہ بدل لینے کا اختیار صرف مرد کے ہاتھ میں نہیں، عورت بھی اس معاملے میں خودمختار اور کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔ یہاں کی عورت مشرقی وفا پرستی کے قصے بہت حیرانی سے سنتی ہے۔ اب تو ہمارے ہاں بھی وقت بدل چکا ہے۔ مرد کی بےوفائی کو قسمت کا لکھا مان لینے والی عورت کی آنکھیں کھل چکی ہیں۔
اسکا تعلق عورت کی معاشی خودمختاری سے بھی ہے۔ آج بھی کہیں عورت اپنا دل اتنا فراغ کر لیتی ہے کہ شوہر کی بےوفائی کو معاف کرکے اسے پھر سے اپنے دل کے سنگھاسن پر بٹھا لیتی ہے۔ لیکن معاشرہ اس بڑے پن اور فراغ دلی پر بھی نکتہ چینی سے نہیں چوکتا۔ شوہر کی بےوفائی کا شکار عورت کسی طرح سے خود کو جوڑ کر جینا سیکھ بھی لے تو معاشرتی منفی رویوں کا شکار رہتی ہے۔ عورتوں کی بےوفائی کا شکار مرد حضرات بھی ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں، اور انہیں بھی اپنے اندر کی توڑ پھوڑ کے ساتھ معاشرتی سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کیا بےوفائی کی ضرورت وہاں پڑتی ہے جہاں رشتے گلنے سڑنے لگیں اور ان کی بدبو سے سانس گھٹنے لگے۔ ایسے میں بےوفائی تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آتی ہے۔ کیا ہر شخص کے دل میں ایک چور دروازہ موجود ہوتا ہے، لیکن کبھی کنڈی اتنی مضبوط نہیں ہوتی۔ کسی دل گداز دستک سے کھل جاتی ہے۔ کہیں حسن جاناں بےوفائی کا سبب بن جاتا ہے تو کہیں کوئی چھپی ہوئی حسرت ناتمام بےوفائی کی ذمہ دار ٹہرتی ہے۔ یا پھر بےوفائی یونہی ہو جاتی ہے کہ بس قسمت میں لکھی تھی۔
اب بےوفائی عام ہو رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس کے بھی کچھ قاعدے اور آداب ہیں۔ رشتے ٹوٹنے کے بعد EX کا ٹائٹل استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو بددعائیں اور گالیاں نہیں دی جاتیں۔ دوسرے لوگوں سے اپنا married status بھی پراعتماد طریقے سے بتا دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار ملنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا، اکثر اوقات دونوں فریقین اپنی اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں۔ ان پر کسی قدم کا اخلاقی یا معاشرتی دباؤ نہیں ہوتا۔ بےوفائی کے شکار کے اندر غم و غصہ، ٹوٹ پھوٹ، نفرت اور انتقام ایک قدرتی امر ہے۔
جب بےوفائی کی آندھی سالوں کی رفاقت، محبت، احساس اور اعتماد کو اڑا لے جاتی ہے تو پیچھے صرف دکھ، تنہائی، خوف، ندامت اور درد رہ جاتے ہیں۔ کبھی معاشرتی خوف کے کارن ہم بےوفائی کو اپنے دل پر سہہ کر دنیا سے چھپاتے بھی ہیں۔
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
دھوکے اور بےوفائی کے شکار کی شناسائی سب سے پہلے دکھ اور درد سے ہوتی ہے۔ قطرہ قطرہ جان پگھلانے والا یہ درد، کبھی تو جان لے بھی جاتا ہے۔ پھر یہ کم بخت دل انکار پر اتر آتا ہے کہ جس کے لئے جان و دل لٹا دئیے اسی نے دھوکہ دیا؟ اور پھر انسان رات دن اسی تانے بانے میں الجھ جاتا ہے کہ یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ کاش یہ نہ ہوتا؟ انسان غم اور غصے کے سمندر میں تن تنہا تیر رہا ہوتا ہے۔ پھر کچھ سنبھلنے کے بعد یہ سوچنا کہ اب کیا ہوگا؟ زندگی کو بےوفائی کے ساتھ کیسے جیا جائے؟
اس سب کے دوران ایسے مقامات بھی آتے ہیں جب زندگی سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ ہنسی، خوشی، سوشل لائف سب مصنوعی سا لگتا ہے۔ زندگی کے ان بکھرے بکھرے، ٹوٹے پھوٹے، بچے کھچے ٹکڑوں کو پھر سے جوڑ کر ان میں دوبارہ سے رنگ بھرنا کتنا مشکل ہے؟ یہ وہی لوگ بتا سکتے ہیں جو اس اذیت سے گزر چکے ہوں۔ ستم تو یہ ہے کہ بندھن جتنا خوبصورت اور سچا ہوتا ہے، وہاں بےوفائی کی تکلیف بھی اتنی ہی شدید ہوتی ہے۔ قابل تعریف ہیں وہ لوگ جو ان سارے نشیب و فراز سے گزر کر نئے سرے سے اپنی زندگی کو شروع کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بےوفائی کے شکار لوگوں کو نارمل افراد کی طرح سے ہی دیکھا جائے۔ ان کے احساسات، جذبات، بول چال اور رویوں کو قطعی طور پر judge نہ کیا جائے۔ ان کی مسکراہٹ کو نشانہ مت بنائیں۔ وہ کس کرب سے گزر کر اس ہنسی کی طرف لوٹتے ہیں، شاید آپ نہ جانتے ہوں۔ ان کے اشکوں کے بھی قدر کیجئے کہ ہو سکتا ہے وہ انہیں روکنے میں کامیاب نہ ہو سکے ہوں۔ شاید ان کے بہہ جانے سے دل کا بوجھ کچھ کم ہو سکے۔ زندگی خدا تعالیٰ کا حسین تحفہ ہے، یہ اتنی بے وقعت اور کم مایہ نہیں کہ اسے یونہی کسی کی بےوفائی کی نذر کر دیا جائے۔
Forgive yourself for the blindness that let others betray you. Sometimes a good heart doesnt see the bad.