Balance In Life
بیلنس ان لائف
خوشگوار اور مطمئن زندگی گزارنے کیلئے توازن کتنا ضروری ہے؟ ہم اپنی زندگی میں خود کو، اپنے گرد موجود رشتوں اور مختلف عناصر کو کس طرح سے دیکھتے ہیں، اور اپنا لا ئحہ عمل مرتب کرتے ہیں؟ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم ارادی یا غیر ارادی طور پر کام یا ملازمت کو باقی سب امور پر فوقیت دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اس میں بڑا دخل کام میں ترقی یا آگے بڑھنے کی خواہش کا ہوتا ہے۔ اس دوڑ میں کبھی ترقی اور اعلی عہدہ تو مل جاتا ہے لیکن ہاتھو ں سے کئی اہم رشتے چھوٹ جاتے ہیں۔ انسان ذہنی سکون اور خوشیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ صحت بھی بری طرح سے متا ثر ہوتی ہے۔
ہمارے اچھے رویوں اور احساسات کی بنیاد بھی توازن پر ہے۔ نہ ہی کسی سے بے پناہ محبت اچھی ہے، اور نہ ہی نفرت۔ اپنے غصہ پر قابو پانا بھی بہت بہادری کا کام ہے۔ اپنی ذات کے معاملے میں اعتدال پسند ہونا ہی بہتر ہے۔ نہ خود کو اتنا کمتر سمجھیں کہ لوگ آپ کو روند کر گزر جائیں، اور نہ ہی خو د کو احساس برتری میں مبتلا ہونے دیں۔ دین اسلام میں میں توازن اور اعتدال کا حکم ہے۔ دین کی روح کو سمجھنے اور عبادات کے ساتھ دنیاوی کاموں میں اچھی نیت اور عمل بھی ایک نیکی ہے۔
آج کل نوجوان نسل میں ایک متوازن لائف سٹائل کا فقدان ہے۔ یہ فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کے حصار میں پوری طرح سے جکڑی نظر آتی ہے۔ کئی میچور لوگ بھی سوشل میڈیا کی لپیٹ میں آکر اپنا قیمتی وقت ضا ئع کرتے نظر آتے ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے گاہے بگاہے تعلیمی اداروں کی بندش نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے ہماری روز مرہ زندگی میں بہت آسانیاں پیدا کی ہیں۔ ہمارے بے شمار کام گھر بیٹھے اور منٹو ں میں ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں، کہ اس کے بےدریغ استعمال نے فیملی لائف، ڈسپلن اور سونے جاگنے کے اوقات کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔
اگر ملکی سطح پر بات کی جائے، توآج پاکستان معاشی عدم توازن کا شکار ہے۔ غربت، بیماری، بیروزگاری اور بھوک آج بھی موجود ہے۔ جس سے جنگ کرنے میں بہت سے جرائم بھی جنم لے رہے ہیں۔ تعلیم اور معاشی آسودگی کسی بھی معاشرے کی ترقی کےلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ تعلیم نہ جانے کب کا روبار میں بدل گئی؟ آج ہمارا نوجوان اعلی تعلیم اور ڈگری کے بعد بھی بیروزگار ہے۔ تعلیمی اداروں اور ٹیوشن سنٹرز کو بے شمار فیس ادا کرنے کے بعد فارغ التحصیل ڈگری ہولڈرذ چھوٹی موٹی ملازمت کرنا گوارا نہیں کرتے۔ جس کا ذمہ دار ہم سب کا ایک فکسڈ مائنڈ سیٹ ہے۔ کتابی علوم کے ساتھ ساتھ عملی تجربہ اور skills بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ سماجی اور اخلاقی لحاظ سے بیمار ڈگریاں کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتیں، شخصیت کا منظم اور متوازن ہونا بھی ضروری ہے۔
مذہب کے حوالے سے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی تشو یش ناک ہے۔ دین کے نام پر قائم مدارس معصوم ذہنوں میں نفرت اور شدت پسندی کا بیج بو رہے ہیں۔ کلمہ توحید اور قرانی تعلیمات سے نابلد لوگ خدا اور رسول کے نام پر انسانیت کا قتل عام کر رہے ہیں۔ اور اس پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی نصاب پر بھی اس حوالے سے نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہمارے نصاب کو رواداری، اخوت ومساوات کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں میرٹ کی کھلے عام دھجیاں اڑانا، سفارش اور اقربا پروری، رشوت ستانی، قابل اور حقدار لوگوں کا اپنے جا ئز حق سے محروم رہ جانا، سماجی اور اخلاقی لحاظ سے کمزور معاشرے کی عکا سی کرتا ہے۔ ان کمزوریوں اور خامیوں کی اصلاح کیے بغیر تبدیلی کا خواب حقیقت کا رو پ کیسے دھارسکتا ہے؟
زندگی کے ہر ر شتے کی خوب صورتی اور بقا کی بنیاد بھی توازن پر ہی قائم ہے۔ اور عصر حاضر میں اس حوالے سے کافی مسائل بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ آ ج والدین کو بچوں کے سا تھ تعلیم و تربیت اور ڈسپلن کے حوالے سے کافی چیلنجز در پیش ہیں۔ سختی برتنے والا فارمولا بھی ناکام ہوتا نظر آتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی ہم بھی بچے تھے، اور ماں باپ ہماری انہی معصوم غلطیوں کو ہنس کر ٹال دیا کرتےتھے۔ بچوں کو بھی جدید ٹیکنالوجی، وقت، ذہنی دباؤ، تعلیمی نظام، روزگار اور اپنی ذات کے حوالے سے کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔ والدین اور بچوں کے درمیان بات چیت اور اعتماد بدلتے وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے، کئی رویوں کی خاک چھانی
جہاں تک ازدواجی رشتوں کا تعلق ہے، تو ان کی اصل خوبصورتی کی بنیاد ہی توازن پر ہے۔ اس کے بغیر زندگی بوجھ لگنے لگتی ہے۔ ایک فرد کا خود کو دوسرے سے بہتر سمجھنا یا چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی انا کا مسئلہ بنا لینا، رشتوں میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔ ان رشتوں میں دونوں فریقین کا اپنے کردار کو پہچاننا اور نبھانا بہت اہم ہوتا ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش اور حقوق و فرائض کی بے جا تکرار رشتوں کو کمزور کر دیتی ہے۔
آج کل کی جنریشن میں اعلی تعلیم یافتہ لڑکیاں یا خواتین بھی ملازمت کرنا چاہتی ہیں۔ اگر میاں بیوی دونوں ہی مستقل طور پر ملازمت کر رہے ہوں تو ایک دوسرے کا احساس اور بھی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتیں بلاشبہ دو محا ذ وں پر لڑ رہی ہوتیں ہیں۔ یعنی ملازمت کے ساتھ گھر اور بچوں کی ذمہ داری بھی نبھا رہی ہوتیں ہیں۔ ایسے میں شوہر یا گھر میں موجود دیگر افراد کی طرف سے کشادہ دلی اور تعاون بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ زندگی میں توازن ہی حقیقی خوشی اور دل کا سکون ہے۔
زندگی کوئی توازن مرے دن رات میں لا
کچھ تو آسودگی رنجور خیلات میں لا
یوں نہ ہو، وقت بہت دور نکل جائے کہیں
دھیان اپنا تو بدلتے ہوئے حا لات میں لا