Aurat Ka Fitri Haq
عورت کا فطری حق
چاند پر تھوکنا ہے تو محاورہ لیکن اس کے کثیر الجہت معانی ہر سطح پر سامنے آتے ہیں۔ کئی زمینی چاند تو ایسے بھی ہیں جو اس تھوک کو چاٹ کر پھر سے چاندنی بکھیرنے لگتے ہیں۔ سیاست کی گنگا میں نہا کر ان پر کوئی انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ کئی تو پیتل کے چاند کو چاٹ چاٹ کر انصاف پسند مجمع یوں جلو میں لیے نکلتا ہے کہ پیتل کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ کچھ ستارے بھی خود کو چاند کہلوانے پر مصر رہتے ہیں اور ان کے منہ سے روبوٹ کو چاند ثابت کرنے کے لیے خوشامد کا شہد یوں پھوٹتا ہے کہ کچھ بن آئے بغیر چارہ ہی نہیں۔ کچھ چاند شمس الرحمن فاروقی کا "کئی چاند تھے سر آسماں " کی گرد ہی بن کر رہ جاتے ہیں۔
کسی چاند کو دیس نکالا دے کر بیرون ملک پاکستانیوں کو مامور کیا جاتا ہے کہ وہ اس کے گھر کے سامنے ڈھول بجا کر اسے گہنانے کی کوشش میں تھوکتے رہیں یہ الگ بات ہے کہ اب سوشل میڈیا کی مہربانی سے ان کا تھوک ان کے اپنے ہی اوپر نظر آتا ہے۔ کسی چاند چہرے سے حسد کا عالم تو یوں سامنے آتا ہے کہ اس پر نانی کا ٹیگ لگا کر جلن نکالی جاتی ہے۔ گویا نانی کے چاند چہرے کی تاب کئی لوگوں کے چہرے سیاہ کر دیتی ہے۔ اب پرانے محاورہ یعنی۔"چاندی کی ریت نہیں، سونے کی توفیق نہیں۔" کو بھی اس انداز سے پڑھا جانے لگا ہے یعنی " تضحیک کی ہی ریت ہے، سہولت کی توفیق نہیں۔"
یہ سوچے بنا کہ سجنا سنورنا عورت کا فطری حق ہے۔ اس پر اگر وہ اپنی صحت کا خیال بھی کرتی ہے تو سونے پہ سہاگا ہے۔ ہمیں اپنی خواتین کو عزت دینا تو آتا ہی نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر زمانے میں عورت نے اپنے سجنے سنورنے پر خصوصی توجہ مرکوز رکھی ہے، جس کا مقصد پرکشش اور حسین نظر آنا ہوتا ہے اور یہ کام مختلف آرایشی لوازمات کے بغیر ناممکن ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ فیشن کی دنیا میں ہونے والے انوکھے تجربات میک اپ اور اس کی تیکنیک پربڑی سرعت سے اثر انداز ہوئے ہیں۔
جب ہم ہر جگہ اچھی مائیں اور اچھے معاشرہ کا نعرہ لگاتے ہیں تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اچھی ماؤں کو گھر کی تمام تر ذمہ داریوں کے علاوہ صحت مند دماغ اور صحت مند جسم کی ضرورت ہے۔ وگرنہ حالات تو یہ ہیں کہ بیس اکیس سال کی لڑکی کی گود میں بچہ کیا آیا سارے محلے کے بابے بھی اسے آنٹی بنا لیتے ہیں۔ ان حالات میں اپنے آپ کا خیال رکھنا بھی تو اولین ترجیح ہے۔ نت نئی اقسام کی مصنوعات کی آمد اور تشہیر نے صنف نازک کو میک اپ کا شعور اور ذوق کو ترویج دی ہے۔ اب بات بیوٹی پارلرز سے نکل کر لیزر کی مختلف تکنیکوں اور مشینوں تک جا پہنچی ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ سولہ سنگھار کو عورت کا اصل حسن اور روپ نہ صرف ماضی میں بلکہ جدید دور میں بھی سمجھا جاتا ہے اور اسے ذوق سلیمی کی علامت سمجھنا چاہیے۔
مریم نواز کی پر وقار اور پر کشش شخصیت سے حسد کاعالم کسی کلنک کی طرح اس پر نانی کا ٹیگ لگا کر لگا کر یوں شور مچایا جا رہا ہے جیسے سیاست کے ساتھ اس پر دنیا کے دروازے بند کر دیے جائیں گے۔ اپنے بچوں کی شادی تو ایک طرف کسی عام سے فنکشن کے لیے بیوٹی پارلرز پر رش لگا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مردانہ کم زوری کے ساتھ حسن میں اضافے کے ہزارہا پیکیج دیے جاتے ہیں جن سے ہر خاص و عام استفادہ پاتے ہیں۔ شادیوں پر گانا بجانا کوئی ایسا مکروہ فعل نہیں کہ اس پر مذمت کی جائے اور خاندان کنگھالے جائیں۔ لیکن الزام تراشی اب جو رخ لے رہی ہے اس کا خمیازہ ہر سطح پر بھگتا جا رہا ہے۔
نئی نسل اپنے ہیروز خود منتخب کرتی ہے۔ فلمی ہیرو ہیروئن اپنی خوب صورتی اور شخصیت کی بنا پر توجہ کھینچتے ہیں۔ اگر عوام کسی کو پسند کرتی ہے تو اس پر قدغن کس لیے۔ یہاں مریم نواز کی خوب صورتی اور حسین شخصیت کے چاندکو گہنانے کے لیے سارا انصافی سوشل میڈیا اس کے ہر قدم پر کیمرہ لگائے بیٹھا ہے اور تاب نہ لا کر بد زبانی اور گالیوں پر اتر آتا ہے۔ آخر ہم ذاتی زندگیوں میں گھسنا کب چھوڑیں گے۔ اسی بات کو جواز بنا کر ثانیہ مرزا بھی واپس چلی گئی تھی۔
ٹک ٹاکرز کو قومی سفارت کاری پر مامور کرنے والوں نے ٹیگ تقسیم کرنے کا بیڑا بھی اٹھا لیا ہے اور طے کیا گیا ہے کہ سب کا ذہنی لیول برابر کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں کے ساتھ دماغ اور فکر بھی بد زبانی اور طعن و تشنیح کی زد میں رکھی جائے اور ایسی تکرار کی جائے کہ سوال کی مہلت ہی نہ مل سکے۔ دریائے سندھ کو سیدھا کرنے کی خواہش میں سب الٹا ہو گیا ہے۔
ہر اک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے
اقوال و نصائح کا ایسا باب کھلا ہے کہ ہر شخص تسبیح تھامے ولی ہونے کا دعوی دار ہے۔ ہم جن بزرگان کی خاک کے برابر بھی نہیں ان سے منسوب کتنے ہی اقوال و واقعات میں ردو بدل کی مثالیں معاشرتی ذہنی کج روی کی عکاس ہیں۔ لیڈران اور قومی رہنماؤں پر ان کی زندگی میں ہی پر نور سفید یا سیاہ چوغے پہنا دیے گئے ہیں یہی ان کی شناخت ہیں۔ یعنی سراپا شر یا سراپا خیر کا لیبل اس شدو مد سے لگایا جاتا ہے کہ عوام کے سوچنے سمجھنے کا کوئی کام رہے ہی نہیں۔ یہ بات اب ابہام نہیں کہ سوشل میڈیا پر انصاف پسند ولی ایسا سپرے کرنے پر مامور ہیں جس کی زد میں انصاف پسندوں کےسوا جو بھی آئے مارا جائے۔
دنیا کے علائق کو ترک کرنے کی علامت کے طور پر بعض فقیرسر کے بال، ابرو، مونچھیں اور داڑھی منڈا لیتے ہیں۔ اسی کوچار ابرو صاف کرنا کہتے ہیں گویا دنیا چھوڑ دی ہے۔ اور اپنا عالم یہ ہے کہ چار ابرو بھی صاف نہیں۔۔ جب عوام کو صرف اپنے خواب دکھانے پر پوری مشینری لگا دی جائے تو جواب یہ ہی ملے گا۔
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے