Youm e Khawateen Ya Youm e Men
یوم خواتین یا یومِ مین
نجانے یہ سماجی دباؤ تھا، حالات کا جبر، کوئی عدم تحفظ یا ڈیجیٹل ہراسمنٹ کا خوف کہ کل عالمی "یوم خواتین" کو بھی ہماری خواتین نے اپنانے سے انکار کر دیا بلکہ اسے "یومِ مین" کے طور پر ہی منایا۔
جنہوں نے اسے "یومِ خواتین" کے طور پر منایا انہوں نے بھی اسے صرف مبارکباد دینے تک ہی محدود رکھا خواتین کے مسائل پر بات کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔
خواتین کی ایک کثیر تعداد نے عورتوں کے مسائل پر کچھ لکھنے کی بجائے اس دن اپنے اپنے گھر کے مردوں کے مزاج و رویوں پہ بات کرنا انہیں، خراج تحسین پیش کرنا زیادہ اہم سمجھا۔ حالانکہ اس موضوع پہ بات کرنے، انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کی قطعی نہ تو کوئی تک تھی نا وجہ۔ یقیناً اس کام کیلئے کوئی بھی دن اور موقع چنا جا سکتا ہے۔
نجانے یہ کون سا خوف تھا۔ یہ کیسا عدم تحفظ تھا یہ کیسا اور کس کا ڈر تھا جس نے انہیں خاص اپنے ہی دن پہ بھی اپنی ہی ہم جنسوں کے مسائل، معاملات پر لکھنے کی بجائے "مرد نامے" لکھنے پر مجبور کیا۔
کہیں ایک آدھ پوسٹ اگر کسی نے لکھی بھی تو ہماری خواتین نے اسے یکسر نظر انداز کر دیا۔ شاید یہ کوئی انسکیورٹی تھی، کسی سخت ردعمل کا ڈر یا حمایت و مقبولیت کے کھو جانے کا خوف ہی تھا۔ بلکہ الٹا بعضے دیواروں پر خواتین کیلئے تضحیک آمیز میمز، تصاویر اور جملے لکھے گئے۔
افسوس اور حیرت کا مقام ہے کہ خود ہماری خواتین کو بھی اس بات کا احساس نہیں کہ یہ دن ان کی ذات اور شخصیت کی اہمیت منوانے کیلئے منایا جاتا ہے جبھی وہ ان حقوق کا خود مذاق اڑاتی ہوئی نظر آتی ہیں جو ان کی بحیثیت انسان پہچان اور شناخت کیلئے لگائے جاتے ہیں۔
آپ عورتوں کی فکری، ذہنی اور شخصی آزادی کا اندازہ اسی بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہ اپنے لئے آواز اٹھانے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ مردوں کے عالمی دن پہ تو اپنے اپنے گھر کے مردوں کی تعریف میں پوسٹیں لکھتی ہی تھیں خواتین کے عالمی دن پہ بھی مرد نامے ہی لکھنے پہ مجبور ہیں۔ کیونکہ اگر نا لکھیں تو میری طرح ڈیجیٹل بائیکاٹ اور غیر مقبولیت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی شاید وہ ہمت نہیں رکھتی۔
میں ایک طویل عرصے سے یہی بات لکھتی آ رہی ہوں کہ خواتین کو اپنے رائے کے اظہار تک کی آزادی نہیں کسی اور شخصی آزادی کی بات ہی کیا۔ انہیں اپنی بقا، اپنے سروائیول کیلئے جو حمایت درکار ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ چپ چاپ وہ لکھیں، بولیں جو ہمارے معاشرے کے مردوں کی اکثریت سننا چاہتی ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گی تو سماجی بائیکاٹ کیلئے تیار رہیں۔
ابھی لوگ پوچھتے ہیں وہ کون سے حقوق ہیں جو عورتیں چاہتی ہیں۔