Zindagi Ka Sab Se Bara Almiya
زندگی کا سب سے بڑا المیہ

زندگی ایک عجیب و غریب سفر ہے۔ یہ سفر خوشیوں، غموں، امیدوں اور مایوسیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہر انسان اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ تلاش کرتا ہے۔ کوئی خوشی تلاش کرتا ہے، کوئی پیار، کوئی دولت اور کوئی کامیابی۔ لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ زندگی کا سب سے بڑا المیہ کیا ہے؟ کیا یہ موت ہے؟ کیا یہ جدائی ہے؟ کیا یہ ناکامی ہے؟ یا پھر یہ کچھ اور ہے؟
زندگی کی سب سے بڑی حقیقت المیہ (Tragedy) ہے۔ انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی آخری سانس تک، وہ کسی نہ کسی صورت المیے سے گزرتا رہتا ہے۔ اگر ہم یونانیوں کے تراشے ہوئے المیہ کرداروں کو دیکھیں یا اپنی روزمرہ زندگی کے بےنام ہیروز کو، سب کے چہروں پر ایک گہری اداسی چھپی ہوتی ہے - وہی اداسی جو شاید زندگی کا اصل چہرہ ہے۔
ارسطو نے کہا تھا کہ المیہ انسان کو شعور دیتا ہے، اس کے اندر ایک ایسی آگ پیدا کرتا ہے جو اسے حقیقت کا سامنا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ مگر ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم المیے سے نظریں چراتے ہیں، اسے وقتی خوشی، مصروفیت اور مصنوعی امید کے پردوں میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یہ المیہ ہے، کوئی دھوکہ نہیں۔ یہ ہمارے اندر کہیں نہ کہیں زندہ رہتا ہے، سانس لیتا ہے اور وقت آنے پر اپنی جھلک ضرور دکھا دیتا ہے۔
اور اسی حقیقت کا ادراک یونانیوں کو تھا۔ یعنی تباہی، بربادی، جنگ و جدل، بے معنویت اور یاسیت انسانی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہیں۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں جب ایتھنز کی ریاست اپنی طاقت اور عظمت کے عروج پر تھی تو دنیا کے اس اوّلین جمہوریہ کے شہری سالانہ میلے کی صورت میں عظیم فنکاروں کی ٹریجڈیز دیکھنے جمع ہو جایا کرتے تھے۔
کیونکہ اس سے جہاں خوف کا ایک پرلطف احساس ملتا تھا، وہیں یہ ان کے لیے کتھارسس کا انمول ذریعہ تھا۔ بلکہ ایتھنز میں انفرادی، سماجی اور سیاسی زندگی بنیادی طور پر اسی فکر میں گوندھی ہوئی تھی۔ وہ زوال کو بڑے اچھے سے سمجھتے تھے۔ ناکامی، تباہی اور بربادی کا انہیں بڑا ادراک تھا۔ تاریخ کے جبر اور اس کی غیرہموار رو سے وہ شعوری واقفیت رکھتے تھے۔
یہ عصرِ حاضر کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم نے المیے کو ایک بدنما داغ سمجھ لیا ہے۔ ہر چیز کو "مثبت سوچ" کے لفافے میں لپیٹ کر پیش کرنا ایک فیشن بن چکا ہے۔ خوش رہنے کی دوڑ میں ہم نے حقیقت سے آنکھیں موند لی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر لمحہ مسکراہٹ میں گزرے، ہر دن کامیابی کی مہر کے ساتھ اختتام پذیر ہو، مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل زندگی مسلسل ناکامیوں، آزمائشوں اور محرومیوں کا دوسرا نام ہے۔
کیا کسی نے یہ سوچا ہے کہ دنیا کے عظیم ترین فلسفی، شاعر، ادیب اور فنکار خوشی کے لمحوں میں نہیں بلکہ شدید ترین المیے کے بعد اپنی عظیم ترین تخلیقات لائے؟ کیا روسو، دوستووسکی، غالب، اقبال اور کامو کی عظمت کا راز کسی "Motivational Speaker" کی دی گئی مصنوعی خوشی میں تھا؟ نہیں! یہ وہ لوگ تھے جو المیے کی گہرائی میں اترے، اس کا سامنا کیا اور وہاں سے ایک نئی دنیا نکال لائے۔
یہ سچ ہے کہ دکھ، محرومی، ناکامی اور المیہ ہمارے سب سے بڑے استاد ہیں۔ جو شخص ان سے بھاگتا ہے، وہ زندگی کے سب سے اہم اسباق سے محروم رہتا ہے۔ ہیرکلیٹس نے کہا تھا کہ "دھوپ اور سائے ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں"۔ زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ جو شخص صرف خوشی کی تلاش میں رہتا ہے، وہ حقیقت کے سائے میں کھڑا ہونے سے گھبراتا ہے۔ مگر یہی سائے ہمیں وہ بصیرت دیتے ہیں جو محض خوشی میں بیٹھ کر کبھی حاصل نہیں کی جا سکتی۔
بحرِ بے تہہِ ہستی کو سراب سمجھنے میں کامیاب و کامران دماغ ہی ایک اعلی دماغ کہے جانے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ یہ ذہن ٹریجڈی کی تہہ میں جا کر اسے ڈھونڈ نکال لایا ہوتا ہے۔ یہ خیالات، نظریات، تصورات، عقائد اور مقدسات کے ملبے تلے دبے زندگی کی خالی سلیٹ کو کامیابی سے باہر نکال کر لانے والا بے چین، مگر آزاد اور مضبوط دماغ ہوتا ہے۔
وجود کی ٹریجڈی کو پالینے والا دماغ۔ اس ٹریجڈی کے بوجھ کو شعوری طور پر اٹھانے والا دماغ۔ ایک مستعد اور چالاک دماغ۔ وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت کے بوجھ کو تسلیم کرنے والے انسان تخلیق کی اس معراج کو پہونچتا ہے کہ اب اپنے اس اکلوتے اور فانی وجود کی بقا کے لیے وہ ہزار جتن کرتا ہے۔ تکلیف اور یاسیت جب اسے تباہی اور بربادی کی حقیقت کے مد مقابل لاکھڑا کرتے ہیں۔
تو وہ اپنی تمام تر استعداد اور صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ان تباہیوں کے سامنے وجود کی کامیابی کو یقینی بناتا ہے۔ اب وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی کی خالی سلیٹ کو پُر کرتا ہے۔ وہ اسے تخلیق، جمالیات، فنونِ لطیفہ، مزاحمت غرض جو جو اسے اس کی وجود کی ضمانت دیتے ہیں، اس سے اس سلیٹ کو سجاتا ہے۔ اپنی زندگی کو معنویت بخشتا ہے۔
ہم جس جدید دور میں جی رہے ہیں، اس میں انسان بظاہر سب کچھ جانتا ہے مگر حقیقت میں شدید ترین الجھن کا شکار ہے۔ وہ تاریخ، فلسفے، نفسیات اور سائنس کے بے شمار دروازے کھول چکا ہے، مگر اپنی ہی ذات کے دروازے پر دستک دینے سے ڈرتا ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ زندگی کو ایک ایسی کہانی سمجھتے ہیں جس کا انجام خوشی میں ہونا چاہیے، مگر ایسا ہوتا نہیں۔ بعض کہانیاں مکمل ہونے سے پہلے ہی بکھر جاتی ہیں اور بعض کہانیوں کے کردار پوری زندگی نامکمل رہتے ہیں۔ یہ وہی کردار ہیں جنہیں ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں - وہ شخص جو کسی کھوئی ہوئی محبت کو یاد کرتا ہے، وہ بوڑھا جو اپنی جوانی کے سنہرے دنوں کو ایک خواب کی طرح دیکھتا ہے، وہ نوجوان جو اپنی صلاحیتوں کو ضائع ہوتے دیکھ کر خاموش رہتا ہے۔ یہ سب زندگی کے وہ پہلو ہیں جن سے ہم نظریں چراتے ہیں، حالانکہ یہی وہ سچائیاں ہیں جو ہمیں اصل انسان بناتی ہیں۔
ہمارے ہاں عام خیال یہ ہے کہ یاسیت (Pessimism) ایک منفی رویہ ہے، حالانکہ دنیا کے عظیم ترین مفکرین اسی سوچ سے گزرے ہیں۔ شوپن ہاور، نطشے، کامو اور کافکا جیسے عظیم دماغوں نے یاسیت کو حقیقت کا سب سے گہرا عکس قرار دیا۔ ان کے مطابق، جب انسان کو یہ شعور حاصل ہو جاتا ہے کہ زندگی ایک المیہ ہے، تب ہی وہ اپنے وجود کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔
زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ ہم مر جاتے ہیں۔ زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم جیتے ہوئے بھی مر جاتے ہیں۔ ہماری زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے خوابوں، اپنی خواہشوں اور اپنی خوشیوں کو مار دیتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی کو ایک ایسی دوڑ میں تبدیل کر دیتے ہیں جہاں ہم صرف بھاگتے ہیں، لیکن کبھی جیتتے نہیں۔ ہر بڑی کہانی میں ایک ٹریجڈی ہوتی ہے، ہر عظیم انسان کے پیچھے ایک درد بھری داستان ہوتی ہے۔ جو لوگ اس درد کو اپناتے ہیں، وہی زندگی کے اصل فنکار بنتے ہیں۔