Thursday, 27 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Voice Of America Ki Yaadein (4)

Voice Of America Ki Yaadein (4)

وائس آف امریکا کی یادیں (4)

پی ٹی وی اگر بند کردیا جائے تو ملازمین کے بیروزگار ہونے پر افسوس ہوگا لیکن اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار نہیں دیا جائے گا۔ حیرت ہورہی ہے کہ امریکی حکومت کے فنڈ سے چلنے والے وائس آف امریکا کے بند ہونے کو لوگ کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ وائس آف امریکا اپنی اہم ترین ذمے داری بھی ادا نہیں کررہا تھا۔ وہ ذمے داری کیا تھی؟ امریکی حکومت کی آواز بننا۔ اس کے بجائے اس نے آزاد ادارہ بننے کی کوشش کی۔ ری پبلکنز کے خلاف پارٹی بن گیا۔ اس کا انجام اور کیا ہوتا۔

امریکا میں اظہار کی غیر معمولی آزادی ہے لیکن اس کے لیے نجی میڈیا ہے۔ سرکاری فنڈ لے کر اظہار کی کون سی آزادی کی جنگ لڑی جاسکتی ہے۔

بی بی سی کی خبر پڑھیں، اس نے لکھا ہے کہ بنیادی طور پر وائس آف امریکا اب بھی ریڈیو تھا۔ اکیسویں صدی میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، امریکا کا سرکاری میڈیا ریڈیائی لہروں پر انحصار کرتا تھا۔ میں کل لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کا ٹرانسمیٹر ٹاور ہی خراب پڑا تھا لیکن نشریات جاری رہیں۔

دوسری ذمے داری اسے سونپی گئی کہ جن ملکوں میں اظہار کی آزادی نہیں ہے، وہاں سچی خبریں پہنچائے۔ یہ وہاں بھی کمپرومائز ہوگیا۔ میں پاکستان کی حد تک بتاسکتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف رپورٹس نشر نہیں کی جاتی تھیں۔ سروس چیف نے نیوزروم کے درمیان میں کھڑے ہوکر بتایا کہ کون کون سی خبریں چلیں گی اور کون سی نہیں۔ یہ سروس چیف وائس آف امریکا کے ضابطہ اخلاق کے خلاف آئی ایس پی آر کے سربراہ سے پاکستان جاکر ملے۔

صدر ٹرمپ نے پہلے دور میں بھی شکایت کی تھی کہ یہ ادارہ امریکا کے دشمنوں کا بھونپو بن گیا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ ہوش کے ناخن لیتا، اپنے رویے میں بہتری پیدا کرتا، اس نے بائیں بازو کے نجی میڈیا جیسا وتیرہ اختیار کیے رکھا۔

خبریں دینے میں وائس آف امریکا نے نام نہاد غیر جانب داری اور آزادی اظہار کا ڈھول پیٹا لیکن اس کے ملازمین سوشل میڈیا استعمال کرتے تو فوراََ سرکاری محکمہ بن جاتا۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ باہر سے کبھی کبھار شکایت آتی تھی، اکثر اپنے کولیگ تحریری شکایت کرتے کہ فلاں بندے نے فلاں ٹوئیٹ کردی یا فلاں پوسٹ داغ دی۔ میرے خلاف کئی بار شکایت ہوئی۔ میں ضابطہ اخلاق کی کاپی دکھاتا کہ اس میں کہاں پابندی ہے؟ میں نے کوڈ کے خلاف کیا کام کیا ہے؟ انھیں میرے اس سوال کا جواب دینا پڑتا تھا کہ شکایت باہر سے آئی ہے کہ اندر سے۔ نام کبھی نہیں بتایا گیا لیکن ڈسنے والا ہمیشہ دفتر کے اندر سے نکلا۔

آپ آج بھی وائس آف امریکا سے نکالے گئے لوگوں کے سوشل میڈیا اکاونٹ دیکھ لیں۔ کسی میڈیا ادارے میں اتنے گونگے لوگ نہیں ملیں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ صحافی کوئی کوئی تھا۔ باقی سب سرکاری کلرک تھے۔ اردو سروس میں تو ایسے نام نہاد افسر بھی تھے جو خاص طور پر چھٹی کے دن دفتر آتے تاکہ اوورٹائم ملے، حالانکہ اس دن صرف لازمی عملے کو بلایا جاتا تھا۔ اب وہ سب گھر بیٹھ کر اوورٹائم لگائیں گے۔

Check Also

Fast Food, Sarmaya Darana Nizam Ka Hathkanda

By Irfan Javed