Thursday, 27 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Moazzam Ali
  4. Andon Ki Tokri

Andon Ki Tokri

انڈوں کی ٹوکری

بچپن میں ایک کہانی سنا اور پڑھا کرتے تھے کہ شیخ چلّی انڈوں کی ٹوکری اٹھائے چلے جا رہے تھے کہ خیال ہی خیال میں انہوں نے کئی خواب بُنےکہ جن میں انڈوں سے مرغی، مرغیوں سے مزید انڈے اور پھر بڑھتے بڑھتے امیر و کبیر بننے کا خواب دیکھ ہی رہے ہوتے ہیں کہ ٹھوکر لگتی ہے، ٹوکری میں موجود سارے انڈے ٹوٹ جاتے ہیں جس کے ساتھ ہی سارے خواب بھی چکنا چور ہو جاتے ہیں۔

بچپن میں جب یہ کہانی سنا کرتے تو من ہی من میں شیخ چلّی کو بیوقوف سمجھتے ہوئے خوب ہنسی مذاق اڑایا کرتے لیکن آج کچھ عجیب ہی خیال گزرا کہ وہ انڈوں کی ٹوکری تو ہم سب اٹھائے پھرتے ہیں اور جب ہم میں سے کسی کو ٹھوکر لگتی ہے، انڈے ٹوٹتے ہیں تو ساتھ ہی سارے خواب بکھر جاتے ہیں جبکہ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اُس متاثرہ شخص کو تو بہت دُکھ ہوتا ہے مگر جس کے سر پر ابھی ٹوکری باقی ہے، جسے ابھی ٹھوکر نہیں لگی، وہ دوسروں کو خود سے کم تر اور ناسمجھ تصور کئے ہوئے ہے جبکہ ممکن ہے کہ اگلے ہی لمحے اس کے ساتھ بھی وہی صورتِ حال در پیش ہو جو کچھ لمحے قبل اسی کے کسی دوست کو پیش آ چُکی ہے۔

تو آج یہ سب سوچ کر رونا آتا ہے، دل خون کے آنسو روتا ہےکہ افراد بکھرتے جا رہے ہیں۔ معاشرہ جو انڈوں کی مانند ایک ٹوکری میں ہونے کے باعث ہر طرف سے محفوظ خیال کیا جاتا تھا، آج سماجی ذمہ داریوں کے سبب ٹھوکر لگنے سے بکھرتا جا رہا ہے۔ اس میں جہاں اہلِ اقتدار و اختیار کا منفی کردار شراکت دار ہے، وہیں ہم سب کی بے جاہ خواہشات کو پورا کرنے کے لئے خود کو ہلکان کئے رکھنا بھی شامل ہے۔

جہاں ارباب اقتدار اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت رہے ہیں وہی عوام بھی اتنی ہی لاپرواہی کا کردار نبھا رہی ہےکیونکہ زندگی کی ضروریات و آسائش میں فرق کرنا ہم سب نے چھوڑ دیا ہے۔ آسائش و سہولیات کو جزو لاینفک تسلیم کر لیا گیا ہےاور انہی کی تکمیل میں سبھی افراد خود کو تھکائے جا رہے ہیں جبکہ بنیادی مسائل کی طرف توجہ دینا کسی کے لئے بھی قابل عمل فعل نہیں رہا۔ اس کی واضح مثال مہنگائی کی صورت میں مل جاتی ہے۔

مہنگائی بالکل مبین حقیقت ہے۔ اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ قوتِ خرید ختم ہوتی جا رہی ہے۔ غریب پستا جا رہا ہے لیکن اِن سب باتوں کے علاوہ فکری لحاظ سے دیکھا جائے تو اِن مسائل کا رونا بھی ہر فرد رو رہا ہے اور مسائل کے حل کی طرف توجہ دلانا کسی کے لئے وقعت ہی نہیں رکھتا۔ مسائل تو پیدا ہوں گے چاہئے ان کا الزام کسی کے سر پر بھی کیوں نہ لگا دیا جائے۔ اب وقت ان مسائل کو حل کرنے کا ہے یا انہیں حل کی کرنے کی طرف توجہ دینا ہےیا ان کے خوفناک اثرات کو کم کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل مرتب کرنا ہےتو پھر وہ لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے؟ اس پر عملدرآمد کیسے ہونا چاہئے؟ اُن کے اثرات کیا ہوں گے؟ یہ سوالات موجودہ ذہنی کشمکش کو کم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتے ہیں لیکن بقول غالب:

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

کے مصدق معاشرے کا تاروبود ہی بکھرتا جارہا ہے۔ فرد! ذاتی خواہشات کی قید میں ہے، خاندان! نمودونمائش سے جڑی آلائشوں کو پورا کرنے کے لیے تگ ودو کررہا ہے اور سماج میں موجود طبقات اپنی اپنی دھن پر سر دھن رہے ہیں۔ کسی کو اقتدار کا نشہ مست کئے ہوئے ہے اور کوئی دولت کی ہوس میں سرمست ہے، کوئی ذاتی انا کے عوض دوسروں پر ظلم وستم روا رکھے ہوئے ہے اور جوابدہی کو بھول بیٹھا ہے اور کوئی حسد وبغض کی آگ کو بجھانے کی خاطر معصوموں کو بلی چڑھا رہا ہے۔

مختصراً کہا جائے تو ہر فرد اپنی اپنی ٹوکری اٹھائے ہوئے ہے اور اسی پر اکتفا کئے ہوئے ہے کہ جو اس کی ٹوکری میں ذاتی خواہشات، مفادات اور کدورتوں کے انڈے ہیں وہی اس کے لیے کافی ہیں جبکہ فرد سے لے کر معاشرہ کے اتحاد کی ٹوکری کب سے ٹھوکر لگنے کی وجہ سے گِر کر بکھر چکی ہے اور محبت والفت، ایثاروقربانی اور اخوت ومودت کے انڈے ٹوٹ کر پاؤں تلے روندے جا چکے۔ اللہ ہی ہمارا حامی و ناصر ہو جو ہمیں اپنے زیاں کا احساس دلادے ورنہ دورونزدیک کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

Check Also

Mashallah Se Aur Achanak Se

By Abu Nasr