Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ruqia Akbar Chauhdry
  4. Dar

Dar

ڈر

"بیس سال تمہاری ماں کی بیماری اور اب موت کے بعد تک میں نے تنہا زندگی گزاری مگر تم دونوں بیٹوں کے سامنے اپنی خواہش اور ضرورت کا اظہار نہیں کر سکا کیونکہ مجھےتم لوگوں سے "ڈر" لگتا تھا"۔

"ہم ساتھ رہنا چاہتے ہیں ہماری صلح ہوگئی ہے مگر آپ لوگوں کے "ڈر" سے ہمیں چھپ چھپ کر ملنا پڑتا تھا"۔

یہ ڈائیلاگز ہیں ایک ہندی فلم اور دوسرا پاکستانی ڈرامہ سیریل منت مراد کا جسے سن کر بھی ان سنا کر دیا گیا۔

اس ڈرامے پہ احباب کے بیسیوں تبصرے پڑھ کر یوٹیوب پہ سرچ کیا اور آخری قسط دیکھی۔ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اتنے سارے لوگوں نے اس ڈرامے پہ لکھا مگر کسی نے بھی اس ڈائیلاگ کو قابل توجہ نہ جانا اس پہ ایک لفظ بھی نہ لکھا۔ کسی نے اسے اتنی اہمیت ہی نہ دی جبکہ میرے نزدیک ڈرامے کا حاصل ہی یہی ایک ڈائیلاگ تھا جو آخری قسط میں لڑکے نے ادا کیا۔

اتفاق سے اسی دن ایک مووی کا کلپ بھی دیکھا جس میں ایک ستر سالہ باپ اپنے پنتیس چالیس سالہ بیٹے کے آگے سر جھکائے شرمندہ، ڈرا سہما ہوا بیٹھا تھا جس کا بیٹا اسے کٹہرے میں کھڑا کرکے سوال جواب کر رہا تھا کہ بیوی کی وفات کے بعد اس نے کسی اور عورت کی طرف دیکھا کیوں۔ اس عمر میں اسے حیا نہ آئی اپنی خواہشات کی تکمیل کا سوچتے ہوئے۔

وہ باپ جس نے بائیس سال ایک ایسی بیمار بیوی کے ساتھ گزارے جو اس کا کوئی حق ادا نہیں کر سکتی تھی مگر وہ شخص اپنی بیوی کی وفات تک اس کے ساتھ وفادار رہا اور وفات کے کئی عرصے بعد اپنے من کی خواہش کی تکمیل صرف اس لئے نہیں کر سکا کہ "بیٹے سے ڈر لگتا تھا"۔

کتنی سچائی مگر کس قدر کرب و اذیت میں ڈوبے ہوئے ڈائیلاگز ہیں یہ دونوں آپ غور تو کیجئے۔

ڈرامے پہ تبصرے لکھنے والوں نے کمزور شوہر، انسکیور ساس، گھر بیٹھی نندیں، بددماغ بھائی اور نجانے کون کون سے پہلوؤں پہ قلم نہ اٹھایا، اپنی "ماہرانہ" رائے نہیں دی مگر اس ایک لائن کو جس میں ہمارے ستر اسی فیصد لوگوں کی پوری زندگی کی کہانی پوشیدہ ہے کسی نے نگاہ غلط ڈالنا بھی گوارا نہیں کیا۔

ہم سب "ہمارے" ہی ڈر سے ساری عمر گھٹ گھٹ کے زندگی گزارتے ہیں کیونکہ ہماری چیل جیسی آنکھیں ہر لمحے دوسروں پر لگی رہتی ہیں۔

یہ فلم یہ ڈرامے کا ڈائیلاگ محض سکرین کی حد تک نہیں حقیقی زندگیوں کی کہانیاں ہیں جو ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں مگر ہم انہیں ایسے ہی نظر انداز کرکے چلے جاتے ہیں جیسے اس ڈائیلاگ کو کر دیا۔

کہیں اکیلے زندگی کا سفر کاٹتی ماں اور کہیں باپ بچوں کے ڈر سے اپنی جائز خواہشات اپنے ہی اندر دبانے پہ مجبور اور کہیں اولاد والدین کے ڈر سے اپنی زندگی جینے سے محروم۔

شوہر اپنی بیویوں سے محبت بھی ڈر ڈر کرنے پہ مجبور ہوتے ہیں کیونکہ انہیں رن مریدی کے طعنوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ طعنے اسے صرف ماں اور بہنوں کی طرف سے ہی سننے کو نہیں ملتے بلکہ چھوٹے غیر شادی شدہ بھائیوں، دوستوں کی طرف سے بھی ایسے ہی چھبتے ہوئے فقرے ہمہ وقت ان کے کانوں کو پگھلے ہوئے سیسے کی طرح جلاتے رہتے ہیں۔

کیوں کرتے ہیں ہم ایسا؟ کیوں ہیں ہم ایسے؟

میاں بیوی میں حالات کشیدہ ہو جائیں یا نوبت اسی ڈرامے کی طرح تھپڑ تک پہنچ جائے لیکن یہی سچ ہے کہ میاں بیوی کی اکثریت ان تلخ لمحوں کو بھول کر زندگی دوبارہ وہیں سے شروع کرنا چاہے بھی تو نہیں کر پاتے کیونکہ وہ جنہیں اس کی خبر ہو جاتی ہے ساری عمر ان دونوں کے رشتے کو اسی ایک واقعے کے فریم میں فٹ کرکے ہی دیکھتے رہتے ہیں۔

لوگوں کی چبھتی نگاہیں ذومعنی فقرے ہر پل انہیں کچوکے لگاتے رہتے ہیں وہ تلخ واقعات جنہیں دونوں ہی اپنی زندگی کی کتاب سے نکال دینا چاہتے ہیں تاکہ آنے والی زندگی خوشی سے گزار سکیں مگر لوگوں کے طعنے ان کی باتیں انہیں وہ تلخیاں بھولنے ہی نہیں دیتی۔

احساس دلاتے رہتے ہیں کہ کچھ ہوا تھا تم دونوں کے بیچ اسے بھولنا مت۔

کچھ دن قبل مطلقہ عورت کیلئے زندگی مشکل ہو جاتی ہے پہ لکھتے ہوئے بھی یہی گزارش بار بار کی تھی کہ یہ مشکلات معاشرتی دباؤ اور ڈر کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں ورنہ کسی ماں باپ کیلئے اولاد بوجھ نہیں ہوتی۔ معاشرے کا "ڈر" والدین کو مجبور کئے رکھتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ٹاکسک ریلیشن میں رہنے پہ مجبور کرتے ہیں۔

کسی کی بیٹی کی شادی نہیں ہوئی تو معاشرتی دباؤ جو والدین کو پیس رہا ہوتا بالآخر "مس میچنگ" پہ مجبور کر دیتا ہے۔

عمر رسیدہ عورت تو دور کی بات ہمارے ہاں مرد بھی بیوی کے جانے کے بعد شادی نہیں کر سکتا کیونکہ اولاد کو معاشرے کے طعنوں کا ڈر ہوتا ہے اور وہ یہی ڈر اپنے عمر رسیدہ باپ کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔

عمر کے آخری حصے میں سسر بہو پوتے پوتیوں کا محتاج ہو جاتا ہے لیکن مناسب رشتہ ہوتے ہوئے بھی شادی نہیں کر سکتا کیونکہ "پوتے پوتیاں جوان ہو گئے کیا اثر پڑے گا ان پہ"۔

"ہائے بیٹی کے سسرال والے کیا کہیں گے اس عمر میں بیاہ رچاتے شرم نہ آئی"۔

"ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے کیا کہیں گے ہمارے باپ کو کیسی آگ لگی تھی"۔

یہ اور ایسے بیسیوں طعنے ہیں جن سے نمٹنے کی ہمت حوصلہ ہم میں سے اکثریت کے اندر نہیں ہوتا کیونکہ یہ ذہنی تشدد سہنا دل گردے کا کام ہے ایسے میں ہمارے اپنے ہمارے ہی ڈر سے سسک سسک کر زندگی گزارتے ہیں لیکن معاشرتی (سو کالڈ) ان روایات سے بغاوت نہیں کر سکتے۔

آخر کیوں رکھتے ہیں ہم دوسروں کی زندگیوں پہ اتنا چیک، پریشر؟ کیوں مجبور کرتے ہیں لوگوں کو کہ وہ ہمارے ڈر کی وجہ سے چھپ چھپ کر وہ کام کریں جنہیں آزادنہ کرنے کا انہیں پورا حق حاصل ہے؟

اپنے اردگرد دیکھئے کونسا رشتہ ایسا ہے جو "ہمارے ڈر" ہمارے شر سے خوفزدہ ہو کر زندگی نہیں گزار رہا؟

شاید کوئی بھی نہیں۔۔

ہم سب کو سبھی سے خطرہ ہے۔

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez