Bachon Ki Tarbiyat
بچوں کی تربیت
توبہ۔ جو تو مجھے شوق تھا نا بھنویں بنانے کا اور آئی میک اپ کا اور بال کٹوانے کا اور گھومنے کا۔
اور ایک اماں تھیں۔
ہر شوق پر بند باندھنے والیں۔
بس شادی ہو جائے تو جو مرضی کرنا۔
گویا شادی سے پہلے کی زندگی بس قید ہو۔
خیر ابا کی وجہ سے فرسٹ ائر تک کافی سیریں، فلمیں، رسالے وغیرہ زندگی میں شامل رہے تھے۔ لیکن یہ فیشن وغیرہ خالص اماں کا شعبہ تھا اس لیے یہاں ابا کے اختیارات سلب کر لئے جاتے تھے۔
مجھے یاد ہے جب میٹرک کی الوداعی پارٹی کے لئے میں ایک سہیلی سے آئی برو بنوا کر گھر آئی تو دوپٹہ ماتھے سے ایسے لپیٹا کہ بھنویں بھی چھپ گئیں۔ اتنی عقل نہیں تھی کہ ایسے تو اماں ضرور ہی دیکھیں گی کہ یہ آج کیا ماجرا ہے؟
آخر شام کو امی نے پوچھ ہی لیا۔
"یہ تمہیں کیا مسئلہ ہے آنکھوں پر"؟
اور جب دوپٹہ اتروا کر دیکھا تو "ابرو میرے کمان" تھے۔
اس دن بڑی یاد گار ڈانٹ پڑی پھر جب اماں کا غصہ اترا تو انہوں نے پیار سے سمجھایا کہ نہ تو مذہبی طور پر یہ درست ہے اور نا ہی ہمارے گھروں کا ماحول ایسا ہے کہ ہم لوگ اس بھنوؤں کی تراش خراش کو اچھا سمجھیں۔ لیکن اماں کے سمجھانے کے باوجود دل سے خواہش ختم نہ ہو سکی۔
حتیٰ کہ جب کالج میں داخلہ ہوا تو ہر لڑکی کی بھنوؤں پر ضرور غور کرتی اور جس کی بھنویں بنی ہوئی ہوتیں اس کو 10 نمبر ایکسٹرا دیتی۔ اف کتنا بے وقوفی کا زمانہ تھا۔
پھر شادی ہو گئی تو بس یہی خوشی تھی کہ بال کٹواؤں گی، بھنویں بنواؤں گی اور خوب فیشن کروں گی۔
سرتاج نے شادی کے اگلے دن ہی کہا۔ "یار تمہارے بال کس قدر پیارے ہیں انہیں کبھی مت کٹوانا"۔
اور بالوں کو بھی سرتاج کی بات سے اتنی حوصلہ افزائی ملی کہ وقت کے ساتھ ساتھ سارے پرزے خراب ہو چکے ہیں اور یہ بال ہیں کہ وقت ان کا بال بھی بیکا نہییں کر سکا۔ آج بھی اسی آب و تاب سے زندہ و پائندہ ہیں۔ (ماشااللہ)۔
ہمارے ہاں پردے کی بھی بہت سختی تھی، میں نے چوتھی کلاس میں برقعہ اوڑھنا شروع کر دیا تھا۔ شادی کے کچھ دنوں کے بعد سرتاج سے کہا کہ میں اب چادر لینا چاہتی ہوں اور برقعہ مجھے بالکل پسند نہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ تیسرا نقاب لگواؤ کیونکہ اس میں سے تمہارا چہرہ نظر آتا ہے۔
یہ خواب بھی ٹوٹ گیا۔ البتہ کپڑوں میں ہر قسم کا اور جدید ترین فیش کا لباس میرا ہوتا تھا لیکن اس میں ستر پوشی کا اہتمام ضروری تھا۔ الحمداللہ!
اب رہ گئی بات بھنوؤں کی تو وہ کبھی کسی قریبی شادی پر جانا ہوتا، جیسے میرے بہن بھائیوں کی شادیاں۔ تو وہاں جانے کےلئے بھنویں بنوا سکتی تھی۔
پھر بہت سارا وقت گزر گیا۔ کچھ میں نے اپنے اندر تبدیلی پیدا کی کچھ انہوں نے لچک پیدا کی تو زندگی کا بہت سارا وقت گزر گیا۔
جب شادی کے 22 سال کے بعد بیٹے کی پاسنگ آؤٹ پریڈ پر جانا تھا تب پہلی مرتبہ برقعہ لینے کی بجائے چادر اوڑھی۔ اس کے بعد جب بار، بار عمرہ کیا تو زندگی میں بہت ساری تبدیلیاں آ گئیں جو اللہ کی طرف سے تھیں اگر مجھے کوئی مجبور کرتا تو شائد میں مان تو لیتی لیکن دل سے نہ مانتی۔
آج کہنا یہ تھا کہ اپنے بچوں پر سختی کرنے کی بجائے بہت بچپن سے ان کے دلوں کو بدلنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ ان کے دلوں میں اللہ کی محبت، اس کی رضا کا حصول، دیانت داری، اس کے بندوں کی خدمت کا جذبہ ڈال دیں گی تو آئندہ زندگی میں ان کے لئے اور آپ کے لئے بہت آسانی ہو جائے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ بچیوں کو کبھی یہ مت کہیں کہ شادی ہو جائے گی تب یہ کرنا اور وہ کرنا، بلکہ اپنے گھر میں انہیں ہر ممکن سہولت، پیار، تحفظ، اچھی تعلیم کے ساتھ تربیت کا اہتمام کریں۔
شادی کے حوالے سے ان کی بڑے متوازن طریقے سے رہنمائی کریں۔ نہ تو شادی کی ایسی تصویر کھینچیں کہ بچیاں شادی سے ہی برگشتہ ہو جائیں اور نہ ہی انہیں یہ کہیں کہ شادی کے بعد جو مرضی ہو کرنا۔ بلکہ انہیں آہستہ آہستہ آئندہ آنے والی ذمہ داریوں کے لئے تیار کریں۔
ایک پنجابی کہاوت ہے۔
"سکھی او مائی
سکھی جس دی جائی"۔
اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کی زندگی کا آخری حصہ پر سکون ہو تو اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دیں۔
آج کے حالات بہت مختلف ہیں، ہمارے زمانے میں گھروں میں صرف بچیوں کی تربیت کا خیال رکھا جاتا تھا لیکن اب چیزیں بہت بدل چکی ہیں، عام انسان کا معیار زندگی اب ایسا بن چکا ہے کہ جب تک دونوں میاں بیوی کام نہیں کریں گے تو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔
چھوٹے بچوں کی سکولنگ ہی اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ اس لئے آج کے لڑکوں کی اچھی تربیت بھی اب ایسی ہی ضروری ہو چکی ہے جیسی کسی زمانے میں بچیوں کی ہوتی تھی۔ تاکہ آج کے بچے جو کہ کل کے والدین ہیں موجودہ زمانے کے چیلنجز کے ساتھ چلنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے عزت، احترام کا رویہ رکھیں۔