Ustad Ka Aalmi Din
استاد کا عالمی دن
دنیا بھر میں ہر سال 5 اکتوبر کو اساتذہ کا دن منایا جاتا ہے جس کا آغاز 1954ع میں ہوا تھا اس کے بعد 1994ع کو پہلی بار عالمی سطح پر اساتذہ کا دن منانے کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ۔اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے سو سے زائد ممالک میں یہ دن اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے باقی دنوں کی طرح اس دن کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے دین اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قرار دیا گیا ہے دنیا میں والدین کے بعد اگر کوئی بچے کی تربیت کر سکتا ہے تو وہ بیشک استاد ہے ۔دنیا کا کوئی بھی معاشرہ 'کوئی فلسفی 'سائنس داں و دانشور استاد کے احترام و عزت کا منکر نہیں ہو سکتا چونکہ کوئی بھی علم و فن استاد کے بغیر حاصل کرنا ممکن ہی نہیں اس لیے ہر جگہ استاد کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یہ استاد ہی کا تو فن ہے جو لوہے کو تپاکر کندن بناتا ہے 'پتھر کو تراش کر ہیرا بناتا ہے اور بنجر زمین کو سینچ کر کھلیان بناتا ہے ۔
استاد کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے کسی قسم کی کوئی کمی اور کوتاہی نہ کرے ہر قدم پر اپنے شاگردوں کی رہنمائی کرے تمام شاگردوں کو برابر سمجھے کبھی کسی شاگرد میں فرق نہ کرے کیونکہ فرق سے شاگردوں کے دلوں میں استاد کے لیے عزت و احترام کم ہوجاتا ہے جو کہ کسی بھی معاشرے کے لیے بہتر نہیں ۔ایک استاد کو اپنے کام میں صابر و سچا ہونا چاہئے کیونکہ وہ ایک نسل کو تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کر رہا ہوتا ہے انکے مستقبل کی تعمیر کر رہا ہوتا ہے سارے خوابوں کو عملی شکل دے رہا ہوتا ہے استاد کو شناس 'وقت کا پابند' خوش اخلاق اور اپنے قول کا پکا ہونا چاہئے جتنا ہو سکے اپنے شاگردوں کے ساتھ محبت و شفیقت سے پیش آے کیونکہ اکثر شاگرد اپنے استاد کی شخصیت سے جلدی متاثر ہوتے ہیں اور بلکل ویسا بنا پسند کرتے ہیں ۔
دین اسلام نے جہاں مسلمان کو علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے وہاں اسلام کی نظر میں استاد کو بھی ایک بہتر مقام حاصل ہے تاکہ اسکی عظمت سے علم کا وقار بڑھ سکے استاد کا علم بارش کی طرح اہمیت رکھتا ہے جیسے بارش زمین میں جذب ہو کر زمین کو سرسبز و شاداب بناتی ہے ٹھیک ویسے ہی استاد کا علم شاگرد کو زندگی کے سہی معنی بتاتا ہے اسے سہی معنی میں ایک بہترین انسان بناتا ہے ۔دنیا میں علم کی قدر اسی وقت ممکن ہے جب استاد کو معاشرے میں وہ مقام دیا جائے جس کا وہ حقدار ہے جو طلب علم استاد کا ادب و احترام کرنا جانتے ہیں اور انکی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے استاد کا کہنا مانتے ہیں وہی شاگرد زندگی میں ہمیشہ کامیاب و کامران ہوتے ہیں دنیا میں عزت کا مقام انہی لوگوں کا مقدر بنتا ہے جو استاد کو احترام و عزت دیتے ہیں ۔کسی سیانے نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ باادب بانصیب بےادب بےنصیب۔