Khulasa e Quran, Panchvi Nimaz e Taraweeh
خلاصہِ قرآن، پانچویں نمازِ تراویح

پانچویں نمازِ تراویح کا آغاز چھٹے پارے سے ہوتا ہے اور آیت نمبر 148 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہیکہ اگرکسی میں بری بات پائی جائے تو لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کرو بلکہ ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرو۔ مظلوم کو اجازت دی گئی کہ وہ بدلہ لے سکتا ہے مگر اسکے ساتھ مظلوم کو اعلیٰ اخلاق اپنانے کی ترغیب بھی دی جارہی ہے کہ اگر وہ عفو و درگزر سے کام لے گا تو یہ بڑی نیکی کا کام ہے۔
یہودیوں اور منافقین باہم ایک ہیں اور ان کے جرائم کی فہرست طویل ہے۔ وہ انبیاء کو قتل کرتے اور حضرت عیسیٰؑ کے قتل کی سازش کرتے ہیں مگر نہ وہ ان کو قتل کر سکے اور نہ ہی سولی پر چڑھا سکے۔ بلکہ جو منافق شخص حضرت عیسیٰؑ کے گھر انکا پتہ دینے داخل ہوا تھا وہ حضرت عیسیٰؑ کا ہم شکل ہوگیا اور یہودیوں نے اُسی شخص کو سولی پر چڑھادیا۔ یہودیوں کی ظالمانہ حرکتوں کی وجہ سے بعض چیزیں ان پر حرام کر دی گئیں اور انکے لیے درد ناک عذاب تیار ہے کیونکہ وہ منع کرنے کے باوجود سود اور مالِ ناحق کھاتے ہیں۔ وہ جو آخرت پرایمان لاتے ہیں، نماز و زکوۃ کی پابندی کرتے ہیں ان کے لیے خوشخبری ہے اور بے حساب انعامات۔
وحی بھیجنے کا ذکر کرتے ہوئے مختلف انبیاء کا مختصر حوالہ دیا گیا کہ اے محبوب ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے کہ ہم نے وحی بھیجی ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور انکے بیٹوں، عیسیٰؑ، ایوبؑ، یونسؑ، ہارونؑ، سلیمانؑ اور داؤدؑ کی طرف۔ سب رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے ہیں میرا محبوب بھی تمہاری طرف حق لے کر آیا ہے اور وہ علم جو ہم نے اسکی طرف اتارا۔ اہل کتاب کو اپنے دین میں زیادتی سے منع کیاگیا۔ عیسیٰؑ بنت مریم اللہ کا رسول ہے، اللہ ایک ہی خدا ہے اور پاک ہے اس سے کہ اسکا کوئی بچہ ہو۔
آیت نمبر 174 میں انسانوں کو قرآن کریم کی صورت میں روشن دلیل اور ہدایت کی کتاب پرعمل کرنے اور مضبوطی سے تھامنے کاحکم دیا تاکہ تم پر رحمت ہو۔ سورۃ النساء کی آخری آیت میں وارثت کا اہم مسئلہ "کلالہ" کا بیان ہے کہ اگر ایسا شخص فوت ہو جائے جس کا کوئی باپ نہ ہو اور نہ ہی کوئی اولاد ہو تو اس صورت میں سگی اور باپ شریک بہن کو وراثت میں آدھہ مال جبکہ دو یا دو سے زیادہ ہو تو وہ تہائی حصہ ملے گا۔ اگر بہن فوت ہو تو کل حصہ بھائی کا ہوگا اور اگر فوت ہونے والے کے بہن بھائی ہوں تو بھائی کو بہن سے دگنا ملے گا۔
سورۃ مائدہ ترتیبِ توفیقی کے اعتبار سے پانچویں (5) جبکہ ترتیبِ نزولی کے اعتبار سے ایک سوبارویں (112) نمبر پر ہے۔ اس سورت میں کل 16 رکوع، 120 آیات اور 12,464 حروف ہیں۔ عربی میں "مائدہ" دستر خوان کو کہتے ہیں اس آیت میں حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں کا ذکر ہے جنھہوں نے مائدہ نازل ہونے کی دعا کی۔ یہ سورت ہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی سوائے آیت "اَلیومَ اکملتُ لکم دینکم"جو یومِ عرفہ حجۃالوداع کے موقع پر نازل ہوئی۔ اس آیت کے بارے میں ایک یہودی نے حضرت عمرفاروقؓ سے کہا کہ اگر ہم پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید بناتے تو امیر المومنین نے کہا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو وہ عرفہ کی شام اور جمعہ کا دن تھا گویا ہماری اس دن دو عیدیں تھیں۔
سورت کا آغاز اہل ایمان کو ہر قسم کے عہد پورا کرنے سے ہوتا ہے۔ اس سورت میں حرام و حلال کے متعلق احکامات ہیں کہ جو چزیں حلال کی گئی وہ حلال سمجھو اور جو حرام کی گئی وہ حرام ہیں۔ جو احکامات بیان کیے گئے ان کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ معاشرت، تمدن اور سیاست (عہد پورے کرنا، خریدوفروخت، اجارہ، عدل وانصاف) شریعت (نکاح، وضو، غسل اور تیمم کے قائدے، سفرِ حج اور حالتِ احرام میں شکارکے بارے احکامات، قسم توڑنا کا کفارہ، چوری کی سزائیں)، کھانے پینے کے معاملات (حرمتِ شراب، خون، مردار اور سور کے گوشت کی حرمت، غیراللہ کے نام کا ذبیحہ، سکھائے ہوئے شکاری جانوروں سے شکار، اہل کتاب کا کھانا)، عقائدت و عبادات (نماز، زکوۃ، روزہ، جہاد، رسولوں پر ایمان) وغیرہ۔
پیغمبروں کی تشریف آوری کا ذکر فرما کر بتایا کہ یہ ایک نعمت ہے رسول اللہ تمہارے پاس اللہ کی کتاب (قرآن کریم) کے ساتھ تشریف لائے کہ یہ خوشی اور ڈر سنانے والے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کا واقعہ بیان فرمایا جب انھوں نے اپنی قوم کو عمالقہ سے بیت المقدس کو پاک کرنے بارے کہا مگر وہ بزدلی اور خباثتِ طبع کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے کہا کہ آپ اور آپ کا رب تم دونوں لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں جس سے موسیٰؑ رنجیدہ خاطر ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ تم ان بے حکموں کا افسوس نہ کھاؤ۔ پھر آدمؑ کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل)کے باہمی اختلاف کا واقع بیان فرمایا۔
قابیل نے والد کی نافرمانی کی اور پھر حسد کی بنا پر اپنے صالح و مومن بھائی ہابیل کو قتل (شہید) کر ڈالا اور تاریخ انسانی کا پہلا قاتل بنا۔ لاش کو دفن کا طریقہ نہ آتا تھا اس لیے مدتوں اپنے بھائی کو کندھے پر ڈال کر پھرتا رہا، قدرتِ خداوندی سے دو کوے آپس میں لڑے، ایک نے دوسرے کو مار دیا اور پھر زندہ نے اپنی چونچ اور پنجوں سے زمیں کو کھود کر اس میں دوسرے کوے کا دفنایا۔ اس طرح بنی اسرائیل کو بتا دیا گیا کہ جس نے کسی جان کو بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک جان بچائی گویا اس نے سب لوگوں کی جان بچائی۔
آیت نمبر 35 میں ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور اسکی طرف وسیلہ ڈھونڈنے (قربِ حاصل کرنے)اور اسکی راہ میں جہاد کا حکم دیاتاکہ تم فلاح پاؤ۔ یہود کے حکام بارے آیات نمبر 41 ور42 نازل ہوئیں جسمیں بتایا گیا کہ وہ رشوت لے کر حرام کو حلال کرتے تھے۔ آیت نمبر 45 میں قانون بیان کیا گیا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اگر کوئی فریق درگزر کرے اور معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ کا عدہ ہے کہ اس کے گناہ بخش دئے جائیں گے۔ انجیل والوں کو اللہ تعالیٰ کے اتارے گئے احکامات کی پیروی کی تلقین کی گئی اور جو نہ مانیں وہ فاسق ہیں۔ اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کر دیتا مگر وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے تاکہ ظاہر ہو جائے کہ کون یقین و اعتقاد کے ساتھ حق کا ساتھ دیتا ہے اور کون اتباعِ نفس کرتے ہوئے حق کو چھوڑ دیتا ہے۔
پارہ کے آخیر میں اہل ایمان کو یہود و نصاریٰ سے دوستی کرنے سے منع فرما کر کہا کہ تم آپس میں دوستی کے رشتوں کو مضبوط کرو اور جو اپنے دین سے پھرے گا تو ان کی جگہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگ لے آئے گا جواللہ کے پیارے اور اللہ انکا پیارا ہوگا۔ تمہارے دوست اللہ، اسکا محبوب رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو نماز و زکوۃ کی ادائیگی کرنے والے اور اللہ کے حضور جھکنے والے ہیں اور اللہ کا گروہ سب پر غالب ہے۔ آیت نمبر 60 میں ان لوگوں کو بیان ہے جو اللہ کے ہاں بدتر ہیں، اللہ نے ا ن پر لعنت کی اپنا غضب فرمایا یہاں تک کہ انکی صورتیں مسخ (بندر اور سؤر) کردیے اور وہ منافقین (کفروضلالت کو چھپاتے) ہیں۔
آیت نمبر64 میں فرمایا کہ اللہ فسادیوں کو پسند نہیں فرماتا اور اے رسول آپ پہنچا دیجئے جو تمہارے رب نے اترا، اللہ تعالیٰ آپ کی نگہبانی کرے گا۔ بے شک وہ کافر ہیں جو مسیح بن مریم کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے (نصاریٰ کا فرقہ مرقوسیہ ونسطوریہ)۔ جبکہ مسیح ابن مریم اللہ کا رسول ہے اور وہ انہیں اللہ کی عبادت کا کہتا تھا کہ و ہی ہم سب کا رب ہے۔
پارہ کی آخری آیت میں یہودیوں اور مشرکوں کو مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن بتایا اور مسلمانوں کے قریب تر وہ ہیں جو عیسیٰؑ کے دین پر رہے جیسے کہ نجاشی بادشاہ مسلمانوں کو عزت و آسائش دیتا تھااور پھر وہ دولتِ ایمان سے مشرف ہوا۔ ان کے عالم اور درویش غرور نہیں کرتے جس سے پتا چلا کہ علم اور ترکِ تکبر کی بدولت انسان ہدایت نصیب ہوتی ہے۔