Sindh Taas Muahida, Bharat Ke Liye Mansookhi Ka Khwab
سندھ طاس معاہدہ، بھارت کے لیے منسوخی کا خواب

سندھ طاس معاہدہ 19 ستمبر 1960ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک (اس وقت "انٹرنیشنل بینک فار ریکنسٹرکشن اینڈ ڈیولپمنٹ") کی ثالثی میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد دریاؤں کے پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا تھا تاکہ مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان پانی کے تنازعات جنم نہ لیں۔ اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا (ستلج، بیاس اور راوی) بھارت کے حوالے کیے گئے، جبکہ تین مغربی دریا (سندھ، جہلم اور چناب) پاکستان کے تصرف میں دیے گئے۔ یہ معاہدہ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے درمیان طے پایا تھا اور اسے ایک تاریخی و بین الاقوامی ذمہ داری کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے محض ایک کاغذی معاہدہ نہیں بلکہ اس کی لائف لائن ہے۔ مغربی دریاؤں پر انحصار پاکستان کے زرعی، ماحولیاتی اور معاشی ڈھانچے کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس معاہدے پر کسی بھی قسم کی یکطرفہ چھیڑ چھاڑ کو نہ صرف مسترد کرتا ہے بلکہ اسے اپنی بقاء کے خلاف سنگین خطرہ تصور کرتا ہے۔ پاکستان کا مؤقف واضح اور دو ٹوک ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی کوئی شق بھارت کو یکطرفہ طور پر اس میں رد و بدل یا معطلی کی اجازت نہیں دیتی۔
23 اپریل 2023 کو بھارت نے پلوامہ واقعے کے تناظر میں سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان محض سیاسی نقطہ چینی کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ معاہدے کی کسی بھی شق میں "معطلی" جیسا کوئی لفظ یا اختیار درج نہیں ہے۔ یہ ایک خام خیالی ہے کہ بھارت صرف ایک اعلان سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معاہدے کو معطل کر سکتا ہے۔ پاکستان نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک احتجاجی مراسلے میں بھارت پر واضح کیا کہ معاہدہ بین الاقوامی نوعیت کا ہے اور اس کی خلاف ورزی ناقابل قبول ہوگی۔
عالمی بینک، جو اس معاہدے کا ضامن اور ثالث ہے، نے بھارتی مؤقف کو یکسر مسترد کرتے ہوئے وضاحت جاری کی ہے کہ سندھ طاس معاہدہ یک طرفہ طور پر نہ معطل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ عالمی بینک کے صدر اجے بنگا نے کہا کہ بینک کا کردار صرف تکنیکی حد تک محدود ہے اور وہ صرف اس وقت ثالثی یا ماہرین کی ٹیم مقرر کر سکتا ہے جب دونوں ممالک اس پر رضامند ہوں۔ اس بیان سے بھارت کی جانب سے معاہدے کی معطلی کی کوشش کو قانونی اور اخلاقی طور پر غیر مؤثر قرار دے دیا گیا۔
بھارت کو اگر سندھ طاس معاہدہ ختم یا معطل کرنا ہے تو اسے بین الاقوامی قوانین، سفارتی ذمہ داریوں اور خود معاہدے میں درج طریقہ کار کی پاسداری کرنا ہوگی۔ اس میں دونوں ممالک کی رضامندی لازمی ہے، ورنہ ایسا کوئی بھی اقدام عالمی سطح پر بھارتی خلاف ورزی کے زمرے میں آئے گا، جس کے سنگین سفارتی نتائج نکل سکتے ہیں۔ پاکستان اس معاملے کو بین الاقوامی عدالت یا اقوامِ متحدہ میں لے جانے کا قانونی و اخلاقی جواز رکھتا ہے۔
بھارت کا یہ خیال کہ وہ سندھ طاس معاہدے جیسے بین الاقوامی معاہدے کو محض سیاسی ضرورت یا داخلی دباؤ کے تحت معطل کر سکتا ہے، سراسر خام خیالی اور غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان کے پانی کے حقوق کا ضامن ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں پانی پر کسی بھی ممکنہ جنگ کو روکنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی درحقیقت علاقائی استحکام کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگی۔
پاکستان کو اس نازک موقع پر نہ صرف اپنے سفارتی اور قانونی چینلز کو متحرک رکھنا چاہیے بلکہ عالمی برادری کو بھی یہ باور کرانا ہوگا کہ سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی صرف دو ممالک کا معاملہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی اصول اور ضابطے کی پامالی ہے۔
سندھ طاس معاہدہ ایک ناگزیر حقیقت ہے جس کی قانونی، اخلاقی اور بین الاقوامی حیثیت مسلمہ ہے۔ بھارت کے لیے اس کی منسوخی ایک سیاسی نعرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان کے لیے زندگی کا ذریعہ ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے پائیدار امن کا بھی ضامن ہے۔ اس کی حفاظت تمام متعلقہ فریقین کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔

