Saleh Wali Azad Ki Khwar Shairi
صالح ولی آزاد کی کھوار شاعری
صالح ولی آزاد خیبرپختونخوا کے ضلع چترال سے تعلق رکھنے والے کھوار اور اردو زبان کے ایک ممتاز شاعر، ادیب اور ماہر تعلیم ہیں، اپنی وسط صدی کی کھوار زبان کی فلسفیانہ شاعری کے ذریعے وہ انسانی وجود اور پیار و محبت کی گہرائیوں کو خوبصورتی اور فلسفیانہ انداز سے بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
آپ اپنی کھوار شاعری میں زندگی کی عدم استحکام اور پوشیدہ محبت کے اسرار و رموز کا ذکر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً
جاشوسان کہ خودی ہورو ہے زندگی بے خود تہ
معلوم تھے ہوئے عاشق بیرائے فنا کہ ہوئے وجود تہ
ترجمہ: شاعر کہتا ہے کہ تو اپنی خودی پر ڈٹ کر اپنا راز عشق چھپائے رکھتا ہے۔ اس راز کو افشا کرنا تو اپنے محبوب کی توہین سمجھتا ہے، تو تیری یہ زندگی بے فائدہ ہے۔ یہ راز تیرے سینے میں دفن ہے، پھر بھی چھپتا نہیں، کیونکہ تو اس غم میں تڑپ تڑپ کر مر جائے گا، پھر دنیا جہاں کو تیری عاشقی کا پتہ چل جائے گا۔ مطلب یہ کہ عشق چپھائے نہیں چھپتا۔
مذکورہ بالا یہ غزل شاعر کے درمیانی دور کی شاعری سے لی گئی ہے، جو گل و بلبل کے تذکروں سے ہٹ کر انسانی زندگی کی بے ثباتی اور عشق حقیقی کی یاد دلاتی ہے۔
صالح ولی آزاد کی شاعری اکثر انسانی زندگی کی عارضی نوعیت اور محبت کی چھپی ہوئی گہرائیوں پر غور کرتی ہے۔ وہ تجویز کرتا ہے کہ کسی کی خفیہ محبت کو خوف سے چھپانا فضول ہے، کیونکہ آخرکار، زندگی کی عدم استحکام ان چھپے ہوئے جذبات کو ظاہر کر دے گی۔ صالح ولی آزاد کی شاعری میں یہ بنیادی تھیم اس تصور کو اجاگر کرتا ہے کہ سچی محبت ہمیشہ کے لیے چھپی نہیں رہ سکتی۔
شاعر ایک مبصر کے طور پر محبت کا زکر کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ کیجئے۔
نمیژ نو ہوئے تہ شیخا روچی دی کہ گنیم ریسان
تہ حیاتہ پھوک رو دی کہ عشقو نو ہوئے نمود تہ
ترجمہ: شاعر کا کہنا ہے کہ ہماری نمازیں، روزے، حج، زکواۃ اور صدقات وغیرہ سب رب کائنات کی رضا کے لئے بغیر حرص و ہوس، بغیر لالچ کے ہونے چاہئیں۔ ان تمام اعمال کی احسن طریقے سے تکمیل کے لئے جو چیز مہمیز کا کام دیتی ہے اس کا نام "عشق" ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے کردار و عمل میں عشق کی موجودگی ضروری ہے۔ شاعر اس شعر میں عشق حقیقی پر زور دے کر کہتا ہے کہ عشق وہ کونپل ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک تناور اور مضبوط درخت بن جاتا ہے، اور "عشق" ہی ایسی سوچ اور فکر ہے جو تجھے غم دوراں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
ہوش نو کوس تختہ دارا بیس عشقو شرابو پئیک گیران
زوخان راہو دى جام جاشوش هيس منزل مقصود تہ
اس شعر میں شاعر نے عشق کی منازل اور عشق کے سفر کی مشکلات و مصائب کا ذکر چھیڑا ہے۔ اگر عشق کی شراب پی جائے تو پھر غم دوراں کا شکوه دشت و صحرا کی صعوبتوں اور تشنہ لبی کی شکایت زباں پر لانا سوء ادب عاشقی تصور کی جاتی ہے۔ سچا عاشق تو تختہ دار پر بھی لٹکنے کو اپنا اعزاز سمجھتا ہے۔ وہ کانٹوں بھرے راستوں کو بھی مخملی گھاس سمجھتا ہے کیونکہ کانٹوں اور آگ کے شعلوں پر سے گزر کر ہی منزل مقصود تک پہنچا جا سکتا ہے۔
صالح ولی آزاد نے اپنی کھوار شاعری میں محبت کی روحانی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ عبادت، روزہ اور صدقہ جیسی عبادتوں کو خالص نیت کے ساتھ اور الہی رضا کے لیے محبت سے چلایا جانا چاہیے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ محبت کو کسی کے کردار اور اعمال میں شامل ہونا چاہئے، شاعر یہ تجویز کرتا ہے کہ یہ نیک اعمال کے لئے ایک حوصلہ افزا قوت کا کام کرتا ہے۔
صالح کی شاعری صرف شاعری ہی نہیں بلکہ محبت کا سفر بھی ہے۔ شاعر نے بڑی مہارت سے محبت کے سفر کو مشکلات اور مصائب سے بھرے ہوئے کانٹوں کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ محبت کو ایک طاقتور شراب سے تشبیہ دیتا ہوا نظر آتا ہے جسے پینے سے سفر کے دوران درپیش چیلنجوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ یہ استعارہ اس خیال کو واضح کرتا ہے کہ حقیقی محبت کرنے والے اپنے محبوب کی طرف اپنے راستے کے حصے کے طور پر مشکلات کو قبول کرتے ہیں۔
وا کیاغ ارو تو اے انگار اشٹوک تہ سوم عاشق اریر فخرو سورا خوشان بیتی چکئیے استائے نمرود تہ۔
اس شعر میں شاعر نے صنعت تلمیح کا بہترین استعمال کیا ہے، شاعر کہتا ہے کہ آگ کے شعلوں سے کھیلنا "عقل" کا نہیں بلکہ عشق کا کام ہوتا ہے۔ شاعر یہاں حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ بیان کیا ہے۔ اے آگ جب پیغمبر حضرت ابراہیمؑ بے خطر آگ میں کود پڑے تو تو نے کیا کیا۔ تیری خاصیت تو جلا کر راکھ کر دینا تھی مگر "عشق" کی ایک مہمیز نے تجھ سے تیری خاصیت چھین لی، یوں نار نمرود گلزار بن گئی۔ مطلب یہ کہ عشق ہی کی بدولت نمرود کا غرور خاک میں مل گیا۔
کہ وصال یارو بچین جگرار دی اشرو هانی
ہزار بہتی ہے ارمانہ تو ژونو بوس بہبود تہ
ترجمہ: شاعر اس شعر میں عشق کی کیفیت اور حساسیت کا ذکر دیے لفظوں میں کیا ہے۔ دوست سے ملنے کی تمنا اور خواہش جب حسرت بن جائے تو دل و جگر بھی رونے لگتے ہیں۔ اس وقت عاشق عشق و محبت کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مر مر کر جئے اور جی جی کر مرے، یہی اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔ مگر زیر لب شکوہ و شکایت سے اجتناب کرے۔
وا ناز یہ انداز کو بے حال ہے رفتار کو؟
کہ بہچک نو بیرائے یرا ہے ہستی بے بود تہ
اس شعر میں شاعر رومان کے پردے میں تمام انسانوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اگر یہ دنیا فانی ہے، زندگی چند روزہ ہے تو تو اترا اترا کر چال ڈھال بنا کر غرور کے سہارے زمین کے اوپر کیوں چلتا پھرتا ہے؟ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
ولا تمش في الارض مرحا انك لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولا۔ (القرآن)
آزاد ریسان مه زندگی صیادو کہ تو جام لاڑیس
غمو اشروان ای طوفان ھیہ جہان و بود تہ
غزل کے مقطع میں شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے آزاد! اس دنیا میں تو اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے، ایسا ہرگز نہیں۔ یہ صیاد (شکاری) کبھی طوفانوں، سیلابوں اور برق و باد کی صورت میں تیرے راستوں کے پتھر بنتے رہتے ہیں۔ گویا گوشئہ ارض کی ہر سمت سے شکاری تیرے پیچھے لگا ہوا ہے۔ شاعر کا اصل مقصد یہ ہے کہ یہ دنیا اشکوں کے طوفانوں سے آباد ہے۔ تیری چند روزہ زندگی ان واقعات و حوادث کے نرعے میں پھنس کر تجھے تیری موت کی یاد دلاتی رہتی ہے۔ تو ہرگز آزاد نہیں بلکہ مقید ہے۔
جیسا کہ اوپر زکر کیا گیا ہے کہ شاعر حضرت ابراہیمؑ کی کہانی اور آتش آزمائش کے ذریعے محبت کی تبدیلی کی طاقت کو اجاگر کرتا ہے۔ وہ تجویز کرتا ہے کہ محبت کسی فرد یا صورت حال کے جوہر کو بدل سکتی ہے۔ نمرود کا غرور اس وقت بکھر کر خاک میں مل گیا تھا جب محبت نے فطری حکم کی خلاف ورزی کی اور آگ کو باغ میں بدل دیا۔
آپ کی شاعری میں سچی محبت کی حساسیت کی گہرائی بھی ہے، آزاد سچی محبت میں حساسیت کی گہرائیوں کو تلاش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب محبوب سے ملنے کی آرزو غالب آجاتی ہے تو عاشق کا دل و روح جدائی کے درد سے گونج اٹھتا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی حساسیت کو شکایات کا سہارا لیے بغیر عاشق کے عزم اور محبت میں کامیابی کے ثبوت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
شاعر دنیاوی غرور اور باطل کے سراب کا مقابلہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ قارئین سے گزارش کرتا ہے کہ وہ زندگی کی عارضی نوعیت کو پہچانیں اور سطحی مشاغل میں ملوث ہونے سے گریز کریں۔ یہ جذبہ قرآنی نصیحت کی بازگشت کرتا ہے کہ دنیاوی تماشوں میں دھوکہ نہ کھاؤ۔