Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rehmat Aziz Khan
  4. Khyber Pakhtunkhwa Ke Azla Mein Jangi Siren Ki Tanseeb

Khyber Pakhtunkhwa Ke Azla Mein Jangi Siren Ki Tanseeb

خیبر پختونخوا کے اضلاع میں جنگی سائرن کی تنصیب

موجودہ جنگی حالات کے پیش نظر خیبر پختونخوا سول ڈیفنس ڈائریکٹوریٹ پشاور کی جانب سے ایک اہم نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس میں صوبے کے متعدد اضلاع میں جنگی حالات کے سائرن نصب کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ اس فیصلے کی بنیادی وجہ مشرقی سرحد پر بھارتی افواج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ممکنہ حملے کا خدشہ بتایا گیا ہے۔ یہ نوٹیفکیشن صرف ایک انتظامی حکم نہیں، بلکہ پاکستان کی موجودہ جغرافیائی و تزویراتی صورتحال، ماضی کے تلخ تجربات اور خطے میں امن و سلامتی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا عکس بھی ہے۔

پاکستان کا دفاعی نظام ہمیشہ سے ہنگامی حالات کے تناظر میں کسی نہ کسی شکل میں فعال رہا ہے۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران شہری علاقوں میں ہوائی حملوں سے قبل سائرن بجائے جاتے تھے تاکہ عوام کو محفوظ پناہ گاہوں تک پہنچایا جا سکے۔ یہی روایت بعد ازاں کارگل جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بھی جاری رہی۔ تاہم گزشتہ دہائی میں سائرن سسٹم کو نظر انداز کر دیا گیا تھا، حتیٰ کہ بعض اضلاع میں یہ نظام مکمل طور پر غیر فعال ہو چکا تھا۔

موجودہ نوٹیفکیشن کا دائرہ کار خیبرپختونخوا کے چند اضلاع پر مشتمل ہے۔ 30 اپریل 2025 کو جاری کردہ نوٹیفکیشن نمبر 4688-4722/1/22/DCD/Operation کے مطابق خیبر پختونخوا کے درج ذیل اضلاع میں جدید جنگی سائرن نصب کیے گئے ہیں یا کیے جائیں گے جن میں پشاور، ایبٹ آباد، مردان، کوہاٹ، سوات، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، مالاکنڈ، دیر لوئر، چترال لوئر، کرم، چارسدہ، نوشہرہ، بونیر، باجوڑ، ہری پور، مانسہرہ، ہنگو، مہمند، دیر اپر، شانگلہ، لکی مروت، خیبر، شمالی و جنوبی وزیرستان، بٹگرام، ٹانک، اورکزئی شامل ہیں۔ یہ سائرن جدید ترین ٹیکنالوجی کے تحت بنائے گئے ہیں جن کی آواز 10 سے 15 کلومیٹر تک سنی جا سکتی ہے۔ ہر سائرن کے ساتھ 744 فٹ کیبل، بریکر اور دیگر حفاظتی سازوسامان مہیا کیا گیا ہے۔

اس نوٹیفکیشن کے کئی اہم پہلو ہیں جن کا تجزیہ ضروری ہے جن میں سرفہرست دفاعی تیاری یا نفسیاتی دباؤ بھی ہوسکتا ہے۔ سائرن کی تنصیب ایک طرف تو دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہے، لیکن دوسری جانب یہ اقدام عوام میں نفسیاتی دباؤ اور بے چینی بھی پیدا کر سکتا ہے، خاص طور پر ایسے علاقوں میں جہاں پہلے ہی دہشت گردی اور بدامنی کے بادل منڈلاتے رہے ہیں۔

عوامی شعور و تربیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ سائرن نصب کرنا ایک اہم اقدام ہے، مگر عوام کو اس کے مقصد، استعمال اور ردعمل کے بارے میں آگاہ کرنا ایک اہم ضرورت بھی ہے۔ فی الحال کسی بھی ضلع میں باقاعدہ تربیتی مہم یا آگاہی پروگرام کا انعقاد نوٹس میں نہیں آیا۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ وسائل کا درست استعمال کیا جائے۔ اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ آیا 2020 میں فراہم کیے گئے سائرن واقعتاً فعال ہیں یا نہیں۔ اگر یہ سسٹمز پہلے ہی موجود تھے تو اب دوبارہ ہنگامی بنیادوں پر یہ نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا گیا؟ کیا پرانے سائرن ناقابلِ استعمال ہو چکے ہیں؟ یہ ایک سیاسی و سفارتی پیغام بھی ہے۔ اس نوٹیفکیشن کے ذریعے عالمی سطح پر یہ پیغام بھی دیا جا رہا ہے کہ پاکستان بھارتی عزائم کے مقابلے میں مکمل طور پر چوکس اور تیار ہے۔ تاہم اس نوعیت کی اطلاعات کے ابلاغ میں توازن اور حساسیت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

یہ نوٹیفکیشن اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان کا داخلی دفاعی نظام اب بھی زیادہ تر روایتی ذرائع پر انحصار کرتا ہے۔ جدید دور میں جہاں سیٹلائٹ وارننگ سسٹمز، ایپ بیسڈ الارم اور خودکار دفاعی سسٹمز موجود ہیں، وہاں سائرن جیسا روایتی طریقہ کار ناکافی اور جزوی نوعیت کا ثابت ہو سکتا ہے۔

مزید برآں اس اقدام کو مقامی حکومتوں کی سطح پر شفاف نگرانی کے بغیر لاگو کرنا بدعنوانی، ناقص تنصیب اور ناقابلِ استعمال نظام کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

سائرن کی تنصیب ایک وقتی اور جزوی حل ضرور ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک جامع شہری دفاعی پالیسی، عوامی تربیت، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور موثر نگرانی کا نظام بھی ناگزیر ہے۔ جنگی حالات کی تیاری صرف سائرن بجانے سے مکمل نہیں ہوتی، بلکہ عوام کا شعور، اعتماد اور حکومتی کارکردگی کا عملی مظاہرہ ہی حقیقی دفاعی قوت بنتا ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan