Gujar Khan Mein Faizan e Noshahiya
گوجر خان میں فیضان نوشاہیہ
اشتیاق احمد نوشاہی کی تخلیقی کاوش "گوجر خان میں فیضان نوشاہیہ"، تصوفاتی ادب میں ایک قابل ذکر اور فکر انگیز تحقیقی کتاب کے طور پر ہمارے سامنے ہے، اس کتاب کو مصنف نے اولیاء کرام کے لیے وقف کیا ہے۔ جسے ادارہ پنجابی لکھاریاں شاہدرہ لاہور کے پلیٹ فارم سے شائع کیا گیا ہے، یہ کتاب 192 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب مختلف روحانی شجرہ نسبوں اور سلسلوں اور ان کی گہری اہمیت پر مشتمل ایک جامع تحقیقی مواد پیش کرتا ہے۔ موصوف نے کتاب کا انتساب نہایت عمدہ کیا۔ ملاحظہ فرمائیں۔۔
تمام اولیائے کرام بالخصوص مشائخ قادریہ نوشاہیہ کی ارواحِ مقدسہ کے نام بے شمار سلام و فاتحہ کے ساتھ اور اپنے محترم والدین کے نام جو مجھے بچپن ہی میں اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اور میری انگلیاں پکڑ کر درِ نوشہ سچیار علیہ الرحمۃ تک لے گئے۔
نکل کر دیر و حرم سے نہ ملتا گر یہ میخانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
کتاب کے فلیپ ڈاکٹر راشد حمید ڈائریکٹر جنرل ادارہ فروغ قومی زبان، اسلام آباد نے لکھا۔
کتاب کا آغاز ایک حمد شریف کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں عبدالقادر قادری کی تحریر کردہ حمد باری تعالیٰ اور عبد الرحیم دلشاد نوشاہی کی نعت رسول مقبول ﷺ شامل ہیں یہ حمد و نعت دونوں شروع سے ہی روحانی طور پر جذباتی لہجہ قائم کرتے ہیں۔
کتاب کو کل چار ابواب میں منقسم کیا گیا ہے، یہ کتاب صوفی روایات کی بھرپور تاریخ کو تفصیلی اور تحقیقی انداز طریقے سے بیان کرتی ہے۔ پہلا باب سلسلۂ نوشاہیہ کی باریک بینی سے تحقیق پر مبنی مواد پر مشتمل ہے، جو اس روحانی نسب و سلسلسے کی گہری تفہیم فراہم کرتا ہے۔ دوسرا باب جو سلسلہ سچیاریہ کے لیے وقف ہے، قارئین کو اس مخصوص سلسلسے کی تعلیمات اور طریقوں کا ایک بصیرت انگیز معلومات پر مبنی ہے جس میں کئی تحقیقی مقالات کو شامل کیا گیا ہے۔
تیسرا باب سلسلۂ برقندازیہ کے بارے میں تفصیلی مواد پر مشتمل ہے۔ جو وسیع تر صوفی فریم ورک کے اندر اس کے منفرد جوہر اور شراکتوں کو کھولتا ہے۔ چوتھا باب جو کہ متفرق مضامین پر مشتمل ہے، اس باب میں مختلف پہلوؤں کو سمیٹتا گیا ہے، جس سے قاری کی تفہیم کو مزید تقویت ملے گی۔ اور متنوع نقطہ نظر اور بصیرت سے بھر پور مواد کو شامل کرکے کتاب کو ہر عمر کے قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث بنایا گیا ہے۔
اس کتاب میں ملک کے نامور مصنفین نے مضامین بھی لکھے حاجی فقیر اثر انصاری فیض پوری اس کتاب کی اہمیت کے حوالے سے اپنے مضمون میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔۔
"دراصل یہ کتاب ایک لافانی سوغات ہے۔ تاریخی منبع ہے۔ جو زمانہ حال میں ماضی کے بزرگانِ عظام کے حالات و واقعات پر روشنی ڈال رہی ہے اور مستقبل بعید تک یہ اپنی افادیت اور حقیقت کا لوہا منواتی رہے گی اور قارئین کے لیے تحفہ بے بہا ثابت ہوگی"۔
محترم ریاست علی مجددی اپنے مضمون "گوجرخان کا صوفیانہ تاریخ دان"کے آخر میں لکھتے ہیں کہ: "کتاب گوجرخان میں فیضان نوشاہیہ"سالکان سلوک و تصوف اور متلاشیان حقیقت و معرفت کے لیے ایک انمول تحفہ ہے، بلکہ گوجرخان کی روحانی تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے"۔
سرگودھا کے حمد و نعت شاعر جناب ڈاکٹر محمد مشرف حسین انجم نے بھی کتاب اور صاحب کتاب پر جامع مضمون لکھا اور موصوف کی کاوش کو سراہتے ہوئے ایک جگہ یوں رقم طراز ہوئے: "گوجرخان میں فیضان نوشاہیہ"جناب اشتیاق احمد نوشاہی کی ایک قابل قدر تصنیف ہے۔ اس تحقیقی و تاریخی کاوش نے جہاں بے شمار پوشیدہ و مخفی گوشہ نگاہوں کے سامنے عیاں کیے ہیں وہاں شاندار و خوشگوار اندازِ تحریر کے جلو میں روحانیت و معرفت کی خوشبوؤں کو قارئین کے تخلیات میں منتقل کرنے کا "لائق تحسین" اہتمام بھی کیا ہے"۔
جناب زاہد اقبال بھیل چیئرمین انٹر نیشنل ادبی سنگت ننکانہ صاحب، خطہ پوٹھوہار کے مشہور شاعر جناب محمد حنیف حنفی صاحب اور ثاقب امام رضوی چیئر مین پوٹھوہاری ادبی فورم کے مضامین بھی اس کتاب کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ جناب صاحبزادہ نعیم اختر قمر مجددی صاحب سرمدانی شریف مریدکے نے قطعۂ تاریخ تصنیف و طباعت اور مادہ ہائے سال تالیف و طباعت لکھے۔
اپنی اس تحقیقی کتاب کے زریعے روحانی تصورات کو مربوط اور معلوماتی انداز میں پیش کرنے میں نوشاہی صاحب کی مہارت لائق تحسین ہے۔ ان کی باریک بینی سے تحقیق اور اس طرح کے گہرے علم کو مرتب کرنے کی لگن اس موضوع کے لیے ان کی ان بابرکت ہستیوں سے گہری عقیدت اور محبت کا اظہار کرتی ہے۔
اشتیاق احمد نوشاہی سچیاری، "عرض مصنف" میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "زیر نظر کتاب تحصیل گوجرخان میں سلسلۂ نوشاہیہ کی پہلی کتاب ہے۔ جس میں سلسلہ ہائے طریقت کے مشائخ عظام، بزرگان دین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ بہت سے ایسے مشائخ عظام ہیں جو عرصہ دراز سے اس سلسلہ سے وابستہ آ رہے ہیں۔ مگر ان کا باقاعدہ تذکرہ کسی کتب میں نہیں ملا، اگر ملا بھی ہے تو صرف نام و نشان کی حد تک۔ راقم الحروف نے سلسلہ ہائے طیرقے سے تعلق رکھنے والے مشائخ عظام کابعد از تحقیق تذکرہ شامل تحریر کیا ہے"۔
موصوف نے تحصیل گوجرخان کا تاریخی تعارف نہایت مختصر مگر جامع لکھا اس کے علاوہ سلسلہ طریقت نوشاہیہ کی چند شاخوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ گوجرخان میں فیضان نوشاہیہ موصوف کی دوسری کتاب ہے۔ اس سے قبل مخزن برکات جلد اول (سوانح عمری حضرت میاں برکت حسین نوشاہی سچیاری) شائع ہوئی جس پر انہیں خوب پذیرائی ملی۔ اب تک آپ کی پانچ کتب شائع ہو چکی ہیں۔
اشتیاق احمد نوشاہی کو علمی و ادبی خدمات کے صلہ میں اب تک چھ گولڈ میڈلز، 24 ایوارڈز، 2 شیلڈزاور بے شمار اسنار اور سرٹیفیکیٹس مل چکے ہیں۔ موصوف کا علمی و ادبی سفر جاری ہے۔ ان کی چند کتب زیر طبع ہیں۔ امید ہے کہ جلد منظر عام پر آئیں گی۔
"گوجر خان میں فیضان نوشاہیہ" محض ایک تخلیقی و تحقیقی کتاب ہی نہیں ہے بلکہ یہ تصوف کے چراغوں کو ایک عقیدت مند انسان کی طرف سے بہترین خراج تحسین کے ساتھ ساتھ شائقین اور علماء کے لیے حکمت کا انمول خزانہ بھی ہے۔ اس کتاب کی علمی گہرائی، ایک روشن پیش کش کے ساتھ مل کر اسے صوفی روایات کے ادب میں ایک قابل قدر اضافہ بناتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اشتیاق احمد نوشاہی اس غیر معمولی کام کو تیار کرنے کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں، مصنف نے قارئین کو تصوف کی صوفیانہ دنیا کے بارے میں ایک دلکش اور بصیرت افروز معلومات فراہم کیا ہے، اولیاء کرام کے روحانی ورثے کا احترام کرتے ہوئے ان ہستیوں کی دینی و علمی خدمات کو بھی تحریری صورت میں محفوظ کیا ہے، میں کتاب کی اشاعت پر مصنف کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔