Akhtar Cheema Ki Shayari
اختر چیمہ کی شاعری
اختر چیمہ کی شاعری روحانی عقیدت سے لے کر سماجی تنقید تک جذبات اور موضوعات کی ایک وسیع رینج پر مبنی ہے۔ ان کی شاعری مذہب سے گہرے تعلق کی عکاسی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، بالخصوص کربلا کے المناک واقعات کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی مسائل کے بارے میں گہری آگاہی بھی نظر آتی ہے۔ آج کے اس کالم میں ہم ان کی مذہبی شاعری کے مختلف پہلوؤں کا تنقیدی تجزیہ پیش کریں گے۔
اختر چیمہ کی شاعری کا ایک اہم حصہ مذہبی موضوعات کے لیے وقف نظر آتا ہے، خاص طور پر حضرت امام حسینؑ کے لیے ان کی عقیدت اور کربلا کے واقعات کے بارے میں ان کی شاعری پڑھنے کے لائق ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک حسینی شاعر کے طور پر پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، شاعر اپنی شاعری میں ظلم کے خلاف کھڑا ہوا نظر آتا ہے اور ہمیشہ انصاف کی وکالت کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ قربانی اور شہادت کی تصویر کو ظلم کے خلاف جدوجہد اور اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی اہمیت پر زور دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم، مذہبی عقیدت کا یہ ارتکاز ان کی شاعری کی حدود کو وسعت دیتا نظر آتا ہے۔
اختر چیمہ کی شاعری سماجی مسائل پر بھی روشنی ڈالتی ہے اور معاشرے کی موجودہ حالت پر تنقید کرتی ہے۔ وہ منافقوں اور بے ایمان افراد کے لیے نفرت کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے، شاعر بے ایمانی اور دوغلے پن سے نفرت کرتا ہے۔ یہ سماجی تنقید اس کی شاعری کو آفاقی بنا دیتی ہے اور عصری سماجی فکروں سے تعلق قائم کرتی ہے اور معاشرتی رویوں کی ترجمانی کرتی دکھائی دیتی ہے۔
اختر چیمہ کی شاعری میں جذباتی شدت ان کی تابناک منظر کشی اور پرجوش زبان سے عیاں نظر آتی ہے۔ محبت، آرزو اور نقصان کے موضوعات پر مبنی شاعری بار بار دیکھنے کو ملتی ہے ان کے بعض اشعار ذاتی تجربات اور جذبات کو چھوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ کی زیادہ تر مذہبی شاعری قارئین کے ساتھ ایک مضبوط جذباتی تعلق پیدا کرتی ہے، مذہبی موضوعات نے آپ کی شاعری کو متاثر کن اور اثر انگیز بنا دیا ہے۔
اختر چیمہ اپنی شاعری کو ہر خاص و عام میں مزید مقبول بنانے کے لیے زبان و بیان کے مختلف مختلف اسالیب، جیسے استعارات، تشبیہات اور علامت نگاری کا استعمال کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ علم بیان کے ان آلات کا استعمال اس کی شاعری کی وسعت۔ گہرائی اور پیچیدگی میں معاون نظر آتا ہے۔ تاہم، بعض اوقات، مشکل استعاروں اور مشکل علامتوں کا استعمال بسا اوقات ان کی شاعری کو پیچیدہ بھی بنا دیتا ہے، جس سے قارئین کو مطلوبہ معنی کو سمجھنے کے لیے کافی دقت پیش آسکتی ہے۔
اختر چیمہ کے ذخیرہ الفاظ کی فراوانی اور پیچیدہ موضوعات کو بیان کرنے کی ان کی صلاحیت زبان پر ان کی مہارت کو ظاہر کرتی ہے۔ پھر بھی، یہ لسانی پیچیدگی اور مشکل الفاظ اور استعارات کا استعمال ایک دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتی ہے۔ اگرچہ یہ اسٹائل اس کی شاعرانہ صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن یہ اسٹائل ان قارئین کے لیے پیچیدگی پیدا کر سکتا ہے جو زیادہ سیدھی اور قابل رسائی زبان کو ترجیح دیتے ہیں۔
جبکہ چیمہ کی بیشتر شاعری ان کے پختہ مذہبی عقائد اور جذبات کو ظاہر کرتی ہے، اس میں وسیع تر قارئین کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے موضوعات کی ایک وسیع رینج کو شامل کرنے سے فائدہ ہو سکتا ہے۔ شاعر اپنی شاعری کے موضوعات کو متنوع بناکر ان قارئین کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے جو مذہبی اور جذباتی موضوعات سے ہٹ کر زیادہ متنوع تجربات کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
اختر چیمہ کی شاعری میں مذہبی موضوعات سے گہری وابستگی نظر آتی ہے، خاص کر کربلا کے واقعات کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل معروضی اور تنقیدی اظہار بھی ان کی شاعری میں بھرپور انداز میں نظر آتا ہے۔ اس کی جذباتی شدت اور زبان پر عبور قابل تعریف ہے، لیکن اس کے استعاروں کی کثافت اور لسانی پیچیدگی کچھ قارئین کے لیے چیلنج بن سکتی ہے۔ اپنی شاعری کو مزید تقویت دینے کے لیے، چیمہ اپنے موضوعاتی دائرہ کار کو وسیع کرنے پر غور کر سکتے ہیں تاکہ ایک زیادہ جامع اور قابل رسائی کلام قارئین کی ضیافت طبع کا سبب ہو۔ مجموعی طور پر ان کی شاعری عقیدے، معاشرے اور انسانی جذبات کی فکر انگیز تصویر پیش کرتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے اختر چیمہ کی شاعری سے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔
***
زمانہ مشکلوں میں جب بھی ڈال دیتا ہے
مرا خدا کوئی رستا نکال دیتا ہے
رقیب برسوں کی محنت سے وار کرتے ہیں
وہ ایک پل میں سفینہ اچھال دیتا ہے
***
میں تخت سلیماں کا تمنائی نہیں ہوں
کافی ہے مرے واسطے بس خاک مدینہ
کونین ہے سرکار کی نعلین کا صدقہ
گر عشق محمد نہیں بیکار ہے جینا
***
بالیقیں! اک شعر ہی کافی ہے بخشش کے لیے
ہم گنہگاروں کا اختر آسرا ہیں مصطفیٰ
***
لوح ابد پہ نقش ہے عظمت حسینؑ کی
دنیا رکھے گی یاد شہادت حسینؑ کی
اختر نماز، روزہ و حج سب فضول ہے
دل میں اگر نہیں ہے محبت حسینؑ کی
***
یا رب بحق شاہ شہیدان کربلا
ہم کو ہجوم رنج و بلا سے نجات دے
ملت کے حال زار پہ دل ہے دکھا ہوا
ہر بے ضمیر راہنما سے نجات دے
***
اے پاک پروردگار اپنا نصیب اتنا خراب کیوں ہے؟
کہ نارسائی کا مدتوں سے یونہی مسلط عذاب کیوں ہے؟
سماج دشمن، سراپا شر دندناتے پھرتے ہیں مدتوں سے
گریز پا ان کی گوشمالی سے تیرا اب تک عذاب کیوں ہے؟
***
خدائے بحر و بر ابر کرم کی انتہا کر دے
خزاں دیدہ گلستان تمنا کو ہرا کر دے
ہلاک حسرت و ارمان ہی اختر نہ ہو جائے
شہید کربلا کا واسطہ حاجت روا کر دے
***
حفظ انا میں لوگ کٹاتے تھے اپنے سر
اب کے برس کسی نے بھی ایسا نہیں کیا
***
جو ہو سکے تو مجھ سے ملنے آ سیالکوٹ میں
کہ چل رہی ہے پیار کی ہوا سیالکوٹ میں
رکھ لیا بیٹے کا اس نے نام میرے نام پر
مجھ کو کھو کر اس کو میری یاد بھی آئی بہت
***
وہ اکثر خواب میں آ کر دلاسہ مجھ کو دیتی ہے
کہ زیر خاک بھی ماں کی پریشانی نہیں جاتی
***
چاہے جتنے عزیز رشتے ہوں
ماں کا نعم البدل نہیں کوئی
اتنے پیسے میں کما کر بھی کبھی دے نہ سکا
جتنے پیسوں سے مرا صدقہ اتارا ماں نے
***
اب لوٹ کے آنے کا تکلف نہیں کرنا
اب تو تو کجا تیری شباہت پہ بھی لعنت
***
اپنا مسلک ہے فقط حق کی وکالت کرنا
ہم کسی ظل الہی کے طرفدار نہیں
ساتھ بے خوف و خطر دیتے ہیں مظلوموں کا
ہم حسینی ہیں یزیدوں کے طرفدار نہیں
***
یہ جاندار ہیں ہم روز جن سے ملتے ہیں
کہیں کہیں کوئی انساں دکھائی دیتا ہے
***
ہو حسب و نسب جس کا حقیقت میں معزز
وہ شخص کسی سے بھی خیانت نہیں کرتا
در اصل وہ ظالم کا طرفدار ہے اختر
مظلوم کی جو شخص حمایت نہیں کرتا
***
ننھی کلیوں کو ستم گر جو مسل دیتے ہیں
ان درندوں کو سر عام اڑایا جائے
بستیاں خاک نشینوں کی بسانے کے لیے
قصر شاہی کی فصیلوں کو گرایا جائے
***
زندگی فاقوں میں ممکن ہے یونہی کٹ جائے
رزق میرا مرے ہاتھوں پہ لکھا رہ جائے
***
مدتوں پہلے سر راہ ملا تھا کوئی
آج تک آنکھوں میں تصویر لیے پھرتا ہوں
ایک مدت سے پلٹ کر نہیں دیکھا اس نے
جس کی بٹوے میں میں تصویر لیے پھرتا ہوں
***
مری چھت ا گرے گی مجھ پہ اک دن
کہاں تھی بات یہ وہم و گماں میں
***
کھڑے ہو تم ہمارے پاس جب سے
حسد سے لوگ مرتے جا رہے ہیں
کسی دن ہم چلیں گے ہیڈ مرالہ
بہاروں کے بلاوے آ رہے ہیں
جنہیں چلنا سکھایا ہم نے اختر
ہمارے ہی مقابل آ رہے ہیں
***
حسینان جہاں کی انجمن میں
فقط اہل وفا دو چار ہوں گے
***
مل ہی جائے گا کوئی آخر محبت آشنا
شہر سارا بے وفا ہو یہ ضروری تو نہیں
***
کان ساقی کے رقیبوں نے بھرے ہیں ایسے
اب مری سمت کوئی جام نہیں آ سکتا
اس سے کالج میں ملاقات تو ممکن ہے مگر
مجھ سے ملنے وہ سر شام نہیں آ سکتا
نبض دیکھی جو طبیبوں نے تو حسرت سے کہا
عشق کا روگ ہے آرام نہیں آ سکتا
***
مسافر کی طرح دن کٹ رہے ہیں
کوئی اس شہر میں اپنا نہیں ہے
انگلیاں ظل الہی پہ اٹھانے والا
خلعت شاہی کا حقدار نہیں ہو سکتا
ہر چمکتی ہوئی شے کو نہیں سونا کہتے
ہر حسیں شخص وفادار نہیں ہو سکتا
***
پیار بڑھ جائے اگر حد سے تو غم ملتے ہیں
ہم حسینوں سے یہی سوچ کے کم ملتے ہیں
***
بارود کے ڈھیر پر ہے دنیا
اور تاک میں حشر کی گھڑی ہے
کچھ لوگوں کا المیہ یہی ہے
قد چھوٹا ہے اور پگ بڑی ہے
***
مجھ کو دنیا کے حوادث کا کوئی خوف نہیں
جب تلک ماں کی دعاؤں کا اثر باقی ہے
نام شبیر زمانے سے نہیں مٹ سکتا
جب تلک ارض و سما، شمس و قمر باقی ہے
***
بہت ہی ٹوٹ کر برسا ہے بادل
فقط کچھ دکھ سنائے تھے ہوا کو
***
ہم پہ ہر دور میں الزام لگے ہیں اختر
خفیہ ہاتھوں کی شرارت نہیں دیکھی جاتی
***
ہم مدینہ مزاج ہیں لیکن
زندگی کٹ رہی ہے کوفہ میں
ایک کب چائے ہو اور ترا ساتھ ہو
زندگی سے بھلا اور کیا چاہیے
***
اپنے ہونے کا وہ احساس دلا دیتا ہے
جب غضب میں ہو تو دھرتی کو ہلا دیتا ہے
***
خادم حضرت عباسؑ علمدار ہوں میں
کیسے ممکن ہے کوئی مجھ سا وفادار ملے
سر کٹا دوں گا یہ پیمان وفا ہے اپنا
میرے لشکر میں اگر ایک بھی غدار ملے
***
لکیر کھینچ کے عباسؑ نے کہا حر سے
مجال ہے تو بڑھاؤ ذرا قدم آگے
***
تیرے ہی واسطے رکھا ہے بچا کر خود کو
اب کوئی پیار سے دیکھے تو برا لگتا ہے
اک سخنور کسی اعزاز کا محتاج نہیں
آستیں میں چھپے سانپوں کا پتا لگتا ہے
***
مزہ تو جب ہے محبت کی داستانوں میں
تمہارا نام بھی آئے ہمارے نام کے ساتھ
تمام شہر کا منہ میٹھا ہم کرا دیتے
تمہاری ہوتی جو نسبت ہمارے نام کے ساتھ
***
سچ تو یہ ہے کہ ہماری نہ تمہاری دنیا
چڑھتے سورج کی ازل سے ہے پجاری دنیا
اپنے آنچل پہ کبھی داغ نہ لگنے دینا
تاک میں رہتی ہے بے رحم شکاری دنیا
***
اس پہ مرتے ہیں مرے شہر کے سارے لڑکے
اپنے خوابوں میں مجھے جس نے بسا رکھا ہے
تیری چاہت کے سہارے ہی جیے جاتے ہیں
ورنہ اس درد بھری دنیا میں کیا رکھا ہے
حاکم وقت کے جوتوں میں پڑے لوگوں نے
شہر ناپرساں میں اندھیر مچا رکھا ہے
***
ابھی ہے کچی کلی اور اس قدر ہے رعنائی
بنے گی پھول تو حسن و جمال کیا ہوگا
وطن فروشوں کی اولاد جب ہو تخت نشیں
ستم رسیدہ رعایا کا حال کیا ہوگا
بلک اٹھا ہے مراعات یافتہ طبقہ
نجانے خاک نشینوں کا حال کیا ہوگا
***
پیش آتے نہ حوادث تو کہاں ممکن تھا
آستینوں میں چھپے سانپ دکھائی دیتے
***
بیٹا بن کر اک مدت سے اپنا فرض نبھاتی ہے
ایک بہادر لڑکی تنہا گھر کا بوجھ اٹھاتی ہے
***
مجھ سے ملنے کے لیے گاؤں ہی آنا ہوگا
میں ترے واسطے لاہور نہیں آ سکتا
***
یہ ترے کام کی کتاب نہیں
تذکرہ اس میں ہے وفاؤں کا
خداوندا! عصا کوئی عطا کر
ہمیں جادو گروں کا سامنا ہے
جس بستی میں ہم رہتے ہیں
سب مادر زاد منافق ہیں
لوگ جو ہر کسی پہ مرتے ہیں
کیوں کبھی ڈوب کر نہیں مرتے
اے خدا تیری مشیت کا کریں کیا شکوہ
ہم پہ ابلیس کے چیلوں نے حکومت کی ہے
ہم ترازو کے توازن پہ اٹھاتے ہیں سوال
قاضی کہتا ہے کہ توہین عدالت کی ہے
حبدار حسین ابن علی کا نہ سمجھنا
سر میرا اگر نوک سناں پر نہ ملے گا
ہم ہیں معمور فقط حسن کی دلجوئی پر
ننھی پریوں کو پریشان نہیں کر سکتے
نہ پوچھ شہر منافق کی داستاں مجھ سے
زباں کا میٹھا ہے ہر شخص دل کا کالا ہے
برسوں سے کسی سے بھی ملاقات نہیں ہے
افسوس کہاں کھو گئے سب یار پرانے
امیر شہر پہ گزرا ہے حادثہ کوئی
فقیہ شہر بہت بد حواس لگتا ہے
بوجھ دھرتی پہ بنے رہنا ضروری تو نہیں
میں اگر مرضی سے دنیا میں نہیں جی سکتا
کلمہء حق سر دربار کہوں گا اختر
میں سخنور ہوں کبھی ہونٹ نہیں سی سکتا
وقت پڑنے پہ نکلتے ہیں منافق اکثر
جن کی پیشانی پہ سجدوں کے نشاں ہوتے ہیں
چاہے کٹ جائے رہ حق و صداقت میں مگر
اپنے سر سے کبھی دستار نہ گرنے پائے
جستجو تتلیوں کی مجھ کو لیے پھرتی تھی
میں کبھی پھول کتابوں میں رکھا کرتا تھا
دل ترے حسن دلآویز میں کھو جاتا تھا
میں تجھے لاڈ سے مس ورلڈ کہا کرتا تھا
اس قدر شہر منافق میں گھٹن ہے اختر
میں محبت بھی سر عام نہیں کر سکتا
سب حسینوں سے میں کرتا ہوں سدا حسن سلوک
لاکھ رنجشش پہ بھی بدنام نہیں کر سکتا
مرے وطن کے سیاسی قمار باز نہ پوچھ
دکھا رہے ہیں تماشا مداریوں کی طرح
کپاس اگا کے بھی اختر جو بے لباس رہے
ستم زدہ ہے بھلا کون ہاریوں کی طرح
مرد میدان اصولوں کا دھنی ہوتا ہے
چھپ کے دشمن پہ کبھی وار نہیں کر سکتا
تو ملے یا نہ ملے بات الگ
ہے لیکن
ایسوں ویسوں سے کبھی پیار نہیں کر سکتا
کم ظرف حسینوں میں مروت نہ حیا ہے
حسرت ہی دل زار نے چاہت کی بھلا دی