Saturday, 21 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rana Hamza Hussain
  4. Pagal Hona Parta Hai

Pagal Hona Parta Hai

پاگل ہونا پڑتا ہے

وہ روزانہ اپنے باپ کے ساتھ ان کی ورکشاپ جاتا، اس کے والد اس کی سب سے بڑی انسپائریشن تھے اس کا والد روزانہ گاڑیوں کا دھواں اور کالک اپنے ہاتھوں اور جسم پر اس لئے برداشت کرتا کیونکہ وہ اپنے بیٹے کو ان بڑی بڑی گاڑیاں والوں کی طرح صاحب بنتے دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ تین بہن بھائی تھے اور والد ان تینوں کی تعلیم پر اپنی جمع پونجی خرچ کرتا کرتا اس دنیا سے چلا گیا اور وہ وقت بھی آیا جب اس کا بیٹا بھی صاحب بن گیا اور وہ بھی اب اسی شان سے زندگی گزارنے لگا جیسے اس کے باپ نےاس کے لیئے خواہش کی تھی۔

یہ انڈس ویلی سویلائزیشن کے شہر لاڑکانہ میں بسنے والے زوہیب قریشی کی کہانی ہے ظفر قریشی 2304 میں سے ان 372 خوش نصیبوں میں سے ہے جنہوں نے اس سال سی ایس ایس امتحانات کو پاس کیا اور سول سروسز اکیڈمی میں ٹریننگ کر رہے ہیں زوہیب کی کہانی ہمیں دواہم نقطے سمجھاتی ہے ان کی طرف آنے سے پہلے اگر زوہیب کی اس جدوجہد کے بارے میں بات کریں تو اس نے 2016 میں مہران یونیورسٹی جامشورو سے اپنی گریجویشن مکمل کرنے کے بعد مالی حالات کے پیش نظر مزید پڑھائی کرنے کی بجائے ایک گورنمنٹ مانیٹرنگ جاب کو جوائن کر لیا اور اپنا مستقبل سنوارنے میں لگ گیا اسی دوران اس کو سی ایس ایس کا شوق ہوا تو اس نے اسی سال سی ایس ایس امتحانات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، یاد رکھیے گا کہ یہ امتحان فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کی طرف سے ہر سال منعقد کیا جاتا ہے، اس میں حصہ لینے والے طلباء کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے یہ امتحانات سویلین بیوروکریٹس کو تعنات کرنےکے لئے ہوتا ہے۔

چلتے ہیں واپس کہانی کی طرف، 2017 میں زوہیب نے نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور مکمل طور پر سی ایس ایس کے لیے یکجا ہونا چاہا اس عمر میں گورنمنٹ جاب کو چھوڑنا ،چھوڑ دینا اور اس وقت میں لوگوں کے طعنوں کی سزا کے علاوہ کچھ نہیں تھا اس سال چار جولائی کو اس نے اپنے دوست فرحان احمد کے ساتھ ایک اکیڈمی جوائن کی اور تیاری کو اور بہتر سے بہتر کرتا گیا 2018 میں ہونے والے سی ایس ایس امتحانات میں ناکامی بھی اس کا راستہ نہ روک سکی کیونکہ یہ بابا کی اس بات کو کبھی نہ بھولا تھا کہ جو کہ اس کا باپ ہر مشکل کے وقت دہراتا ' پتر اللہ خیر کرے گا' اور پھر ہوا یوں کے اس سے پہلے کہ وہ 2019 میں ہونے والے سول سروسز امتحانات میں کامیاب ہوتےاسے دیکھتےاس کے والد خالق حقیقی سے جا ملے۔

یہ سب گھر والوں کی سپورٹ تھی زوہیب کے بھائی نے کبھی بھی اسے اکیلا نہ چھوڑا بلکہ باقی گھر والوں کے ساتھ ہر اس وقت میں اس کی حمایت کی جب سب کہتے تھے کہ نہیں ہوگا اور بھائی کہتا تھا کہ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا انسان ہمیشہ سے ایک تھپکی کی خاطر بڑے بڑے پہاڑ گرانے کو تیار ہوجاتا ہے اگر آپ ہر مشکل وقت میں اپنے بچوں کو بھائی بہنوں کے ساتھ کھڑے ہو تو وہ بڑا سے بڑا کارنامہ سرانجام انجام دینے سے گھبرائیں گے نہیں۔

دوسرا ان لوگوں کی باتیں ہیں جو زوہیب کو نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کرنے پر پاگل کہتے تھے اور بار بار اسے ماضی کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیتے تھے یاد رکھیے کہ آپ کی زندگی وہ چھوٹے چھوٹے فیصلے ہوتے ہیں جو آپ کے مستقبل کو ترستی ہیں ان کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے کوئی بھی کسی بھی وقت فیصلہ کرے تو اسے قدرت بھی راستہ دینے پر مجبور ہو جاتی ہے یہ ہماری غلامانہ سوچ ہے جو ہمیں ایک جگہ ہیں بے معنی مقصد کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔

زوہیب نے بھی فیصلہ کیا اور اپنا مقصد طے کیا اور لوگوں کو ثابت کر دیا کہ اگر مقصد حاصل کرنے کرنا ہے تو آپ کو پاگل ہونا پڑے گا ورنہ آپ بھی عقلمندوں کے ساتھ تاریخ کا سیاہ چہرہ بن جائیں گے۔

Check Also

The Prime Ministers

By Rauf Klasra