Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raheel Moavia
  4. Workers Ko Ab Sochna Chahiye

Workers Ko Ab Sochna Chahiye

ورکرز کو اب سوچنا چاہیے

راولپنڈی جلسہ لیاقت باغ میں تھا اور وہ سارا دن اٹک پل پر مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد سیدھا کے پی ہاؤس جا پہنچے۔ راولپنڈی کے کارکنان سارا دن سڑکوں پر مار کھاتے رہے، شیلنگ برداشت کرتے رہے اور گرفتاریاں دیتے رہے۔ اس امید پر کہ گنڈا پور صاحب کا قافلہ آئے گا تو انقلاب کا راستہ روئے زمین پر بسنے والا کوئی بشر نا روک پائے گا۔

پنجاب اور اسلام آباد پولیس کے پی سے لائے گئے عوامی سمندر کے آگے ریت کی طرح بہہ جائیں گے اور جیل کے تالے ٹوٹ جائیں گے۔ قافلہ گنڈاپور ہر صورت عمران خان کو رہا کروا کر اپنے ساتھ لے جائے گا۔ کے پی سے آیا قافلہ بھی سارا دن شیل کھاتا رہا مار دھاڑ کا سامنا کرتا رہا لیکن جب لیاقت باغ جانے کا وقت ہوا تو عین اسی وقت گنڈاپور صاحب کے پی ہاؤس اسلام آباد پہنچ گئے۔ قافلہ انقلاب لیاقت باغ انتظار کرتا رہ گیا اور اڈیالہ جیل میں عمران خان صاحب۔

اس روز بھی ساری رات گنڈاپور صاحب پراسرار طور پر غائب رہے اور یہ معمہ آج تک حل نا ہوسکا۔ اس رات گنڈاپور صاحب کہاں تھے؟ کس کے ساتھ خفیہ طور پر کارکنوں کی ان کوششوں کاوشوں اور مزاحمتوں کا سودا کرتے رہے؟ اچانک صبح چار بجے کیسے نمودار ہوئے اور سیدھا ناک کی لکیر پر پشاور جا پہنچے؟

لاہور میں ہائیکورٹ کی وساطت سے جلسہ کی اجازت ملی تو لوگ وزیراعلٰی کے پی کا انتظار کرتے رہے لیکن وہ سارا دن موٹروے پر گزار کر عین اس وقت جلسہ گاہ میں پہنچے جب جلسہ ختم ہوچکا تھا۔ انہوں نے جذبات کے مارے عوام کو پاگل بنانے کے لیے لاہور پہنچتے ہی کھڑی گاڑیوں کے شیشے اپنے مبارک ہاتھوں سے ریزہ ریزہ کیے تاکہ نونہالان انقلاب اس عظیم کارنامے پر داد شجاعت دیتے ہوئے شادیانے بجا سکے۔ لاہور رنگ روڈ پر ہی کھڑے کھڑے چار لفظی خطاب فرما کر واپس روانہ ہوگئے۔

عمران خان کو ملنے اڈیالہ جیل گئے تو انہوں نے داد دینے کی بجائے کلاس لینے کا اہتمام کرلیا۔ لیاقت باغ نا پہنچ پانے پر سخت سرزنش کی اور یاد دلایا کہ اس روز اگر وہ لیاقت باغ پہنچ جاتے تو انہیں لیڈر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ شاید عمران خان صاحب کو یہ خوش فہمی تھی کہ اگر گنڈاپور صاحب اس روز لہاقت باغ پہنچ جاتے تو اس رات انقلاب سورج طلوع ہوجاتا اور جبر کی رات کی یہ ظلمت کٹ جاتی یا اس کی تاریکی میں کچھ کمی واقع ہوجاتی۔ علی امین گنڈاپور کی کلاس لگانے کے بعد انہوں نے بزرگ رہنماء اعظم سواتی کو بھی شدید رسوا کیا کہ انہوں نے جو چند وکلاء کو سڑک پر نکال کر معرکہ مارا ہے وہ خود اس کو اخبار میں دیکھ چکے ہیں لہذا اس کر سر اونچا کرنے کہ بجائے سواتی صاحب کو مارے شرم کے زمین کی طرف لکپنا چاہیے۔

دونوں رہنماؤں کی خاطر مدارت کے بعد نہیں دوبارہ ڈی چوک پر میدان سجانے کی ہدایت کی اور یہ میدان تب تک سجائیں رکھیں کہ جب تک انکی پرانی محبت مجبور ہوکر دوبارہ عمران خان صاحب کی طرف نا لوٹ آئے اور اور انہیں دوبارہ اپنے حرم میں لینے کا اہتمام کرلیں۔ گنڈاپور صاحب نے باربار اس بابت اشارہ بھی دیا کہ ہم تب تک سڑکوں پر ہیں جب تک اڈیالہ جیل میں بیٹھے قیدی سے معاملات طے نہیں پاجاتے۔

انقلاب کا بندوبست کرنے پر مامور اعظم سواتی اور وزیراعلٰی کے پی علی امین گنڈاپور مجبورا دوبارہ سے کے پی سے سرکاری مشینری اور فورسز کے سائے تلے قافلہ انقلاب لے کر نکل پڑے اور اسلام آباد کی حدود میں روک لیے گئے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ڈی چوک پہنچنے کی کوششوں میں مار کھاتے اور گرفتار ہوتے رہے لیکن گنڈاپور کا قافلہ ایک دفعہ پھر ڈی چوک نا پہنچ سکا۔

ایک دن بھرپور مزاحمت ہوئی۔ دونوں طرف سے شیلنگ ہوئی۔ گرفتاریاں ہوئیں۔ اسلام آباد پولیس نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی شیل برسائے لیکن باہمت پی ٹی آئی ورکرز مار کھاتے رہے، گرفتاریاں دیتے رہے۔ ایک رات گنڈاپور نے اپنے قافلے کے ساتھ سڑک پر گزاری اور اگلے دن دوبارہ ڈی چوک کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ دوسرے دن ڈی چوک جانے کی بجائے علی امین گنڈاپور اپنے ورکرز کو اکیلے سڑکوں پر مار کٹائی کے لیے چھوڑ کر خود کے پی ہاؤس میں چائے پینے کے لئے جاپہنچے اور پھر سے غائب ہوگئے۔

پی ٹی آئی ورکرز مارے مارے اپنے لیڈر کو ڈھونڈتے رہے لیکن وہ نا ملے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے انہیں لاپتہ قرار دے دیا اور اگلے روز تک علی امین گنڈاپور کی بابت کسی کو کچھ علم نا ہوسکا کہ موصوف کہاں ہیں۔ کے پی اسمبلی کے اجلاس میں پورے 24 گھنٹوں کے بعد علی امین گنڈاپور اچانک سے نمودار ہوئے اور جاسوسی ناولوں میں چھپنے والی نہایت پراسرار کہانی سنائی کہ موصوف آنکھیں چرا کے بھاگ آئے ہیں۔ 12 اضلاع سے ہوتے ہوئے پشاور پہنچے ہیں اور موصوف کی جیب میں ایک روپیہ تک نہیں تھا لیکن موصوف جیسے تیسے بھی یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ حسب سابق وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو خوب لتاڑ کر کارکنان کو دوبارہ جذباتی بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔

موصوف یہ بھول گئے کہ وہ جن بارہ اضلاع میں مارے مارے پھر رہے تھے وہ اسی بدقسمت صوبے کے منتخب نمائندے ہیں اور ان 12 اضلاع کی پولیس، بیوروکریسی، پٹواری، ڈپٹی کمشنرز، ڈی پی اوز اور ہزاروں سرکاری ملازمین ان کے ماتحت ہیں۔ کے پی عوام کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے ان کے وسائل کو بے دریغ استعمال کرتے ہوئے موصوف ایک سیاسی بت کی پوجا پاٹ میں مصروف ہیں اور پورا کے پی بنیادی مسائل کی دلدل میں پھنسا پڑا ہے۔

پی ٹی آئی کارکنان کے لیے یہ موقع نہایت سنجیدگی سے سوچنے کا ہے۔ پوری دنیا میں سیاست دان گرفتار ہوتے ہیں اور جیل میں جاتے ہیں لیکن لیڈر وہ ہوتا ہے جو خود پر سختیاں برداشت کرکے اپنے کارکنان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے۔ خان صاحب کو جب علم ہوا کہ ان کی گرفتاری متوقع ہے تو کارکنان کو بلا کر گھر کے باہر بٹھا لیا۔ مہینوں سڑکوں پر جھگیاں لگائے وہ لوگ ذلیل ہوتے رہے اور ایک شخص کی گرفتاری کا راستہ روکنے کے لیے ملنگوں کی طرح پڑے رہے۔ جب پولیس نے گرفتاری کی کوشش کی تو زمان پارک میدان جنگ بنا دیا اور کارکنان کو اس آگ میں بطور ایندھن استعمال کرتے ہوئے اپنی گرفتاری سے بچنے کی ہرممکن کوشش کی۔ کارکنان کو یہ تاثر دیا کہ اگر میں گرفتار ہوا تو یہ لوگ مجھے قتل کردیں گے اور کارکنان اپنے بچوں تک کو لیے زمان پارک بیٹھے رہے کہ ہم نے اپنے لیڈر پر اپنے بچے قربان کرنے ہیں لیکن گرفتار نہیں ہونے دینا۔

کئی ہفتے اس جنگ و جدل میں گزرنے کے بعد جب 9 مئی کو عمران خان صاحب گرفتار ہوئے تو پورے ملک میں سینکڑوں جگہوں پر احتجاج کے نام پر توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراؤ ہوا۔ عمران خان صاحب نے آج تک اپنی اس غلطی کو تسلیم نہیں کیا کہ کیسے انہوں نے اپنی ایک گرفتاری کو اتنا بڑا اور نازک معاملہ بنا کر پیش کیا تھا کہ پورے ملک میں آگ لگوا دی تھی۔ وہ آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ انہیں گرفتار کرنے والوں نے انہیں گرفتار کرکے غلطی کی تھی کیونکہ وہ آسمان سے اتری ہوئی الگ مخلوق میں سے ہیں وہ عام انسان تھوڑی نا ہیں کہ انہیں گرفتار کیا جاسکے۔

جو بھولے بھالے لیکن انتہائی مخلص اور محبت کرنے والے کارکنان سمجھتے تھے کہ عمران خان اگر گرفتار ہوئے تو انہیں خدانخواستہ قتل کردیا جائے گا انہیں سوچنا چاہئے کہ عمران خان صاحب پورے ایک سال سے جیل میں بند ہیں جہاں وہ 117 روزانہ اپنے لوگوں سے ملتے ہیں۔ دیسی گھی میں بنے دیسی ککڑ اور مرغن غذائیں نوش فرماتے ہیں۔ کتابیں پڑھتے ہیں اور جدید ترین مشینری پر روزانہ ورزش کرتے ہیں۔

جس عمران خان کی گرفتاری کو روکنے کے لیے پورے ملک میں آگ لگائی گئی، توڑ پھوڑ ہوئی، املاک کا نقصان ہوا اور کئی عام لوگ بیچارے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کئی لوگوں پر مقدمات بنے، جیلوں میں گئے، خاندان تباہ ہوئے، کاروبار اجڑ گئے اور ناقابل یقین حد تک جانی و مالی نقصان ہوا اس عمران خان کے اپنے دو بیٹھے لندن میں بیٹھے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور وہ خود بھی جیل میں بیٹھا ان کی باہر گزارے جانے والی زندگی سے کہیں بہتر ہی زندگی گزار رہا ہے۔

کیا کسی ایک شخص کی گرفتاری کو دو دشمن ممالک کے درمیان جنگ کی سی کیفیت بنا کر اپنے عوام کو ریاست سے لڑوا دینا عقل مندی ہے؟

یہ سو فیصد آمرانہ سوچ ہے۔

لوگوں کے بچوں کو اس عظیم آزادی کی جنگ میں ایندھن بنانے والے کبھی سوچنا گوارا کریں گے کہ ایک شخص کی انا کی لڑائی اگر اتنی ہی عظیم لڑائی ہے تو اس شخص کی اپنی اولاد کیوں اس لڑائی سے باہر ہے؟

کہاں ہیں عمران خان کے برخوردار؟

اس ملک میں نفرت، انتہاپسندی اور افراتفری کی مزید رتی برابر بھی ضرورت نہیں۔ خدارا مل بیٹھیں اور آگے بڑھنے کے لیے آئینی اور جمہوری راستوں کا انتخاب کریں۔

میثاق جمہوریت کا حصہ ہونے کے باوجود عمران خان نے اس کی خلاف ورزی کی اور اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر چڑھ کر اقتدار میں آئے۔۔ آج اگر اسی راستے پر چل کر شہباز شریف نے اقتدار لے لیا ہے تو عمران خان اس پر کیسے گنقید کرسکتے ہیں؟ اس غیر جمہوری عمل پر ہم جیسے جمہوریت کے طالب علم تو کوئی بات کرسکتے ہیں کہ جنہوں نے عمران خان کے اس غیر جمہوری عمل پر کھل۔ کر تنقید کی لیکن جو اس وقت بہتے دریا میں غوطہ زن رہے ہوں وہ اسی دریا سے آج شہباز شریف کے ہاتھ دھو لینے کو کس منہ سے غلط کہہ رہے ہیں۔۔

Check Also

Molvi Abdul Salam Niazi

By Zubair Hafeez