Shahi Qila Ke Parisar Zindaan
شاہی قلعہ کے پرسرار زندان
شاہی قلعہ مغلیہ دور حکومت کی کیا شاندار تعمیر ہے۔ زیر زمین سرنگیں، حمام اور زندان انسانی عقل کو دھنگ کردیتے ہیں۔ میرے پچھے موجود چھوٹا سا کمرہ ہے۔ جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو قید رکھا گیا۔ چھوٹے سے اس کمرے میں قضائے حاجت کے لیے بنائی گئی جگہ پر کوئی پردہ نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک پختہ سیمنٹ سے بیڈ بنایا گیا ہے جو بمشکل تین فٹ چوڑا اور سات فٹ لمبا ہوگا۔
برطانوی دور میں شیش محل کے سامنے والی عمارت کو جیل بنایا گیا تھا۔ اس کو اب برطانوی قید خانہ کہا جاتا ہے۔ یہاں پر ان لوگوں کو قید کیا جاتا تھا جو آزادی کی بات کرتے تھے یا پھر انگریز کا تسلط ماننے سے انکار کرتے تھے۔ اس دور میں مقامی قیدیوں پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے گئے یہ زندان آج بھی اس کا شاہد ہے اور اس کو دیکھتے ہی انسان کی چھٹی حس اس میں ہونے والے مظالم کی منظرکشی کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس عقوبت خانے کی خوفناک عمارت آج بھی شاہی قلعے میں نشان عبرت کے طور پر موجود ہے۔ یہ برطانوی دور میں شاہی قلعے کے اندر بننے والے بارود خانے کے بالکل سامنے موجود ہے۔
اس سے آگے بڑھیں تو خوبصورت موتی مسجد ہے جس سے تھوڑے ہی فاصلے پر وسیع و عریض پرشکوہ عمارت ہے۔ یہ عمارت اس قدر خوبصورتی سے بنائی گئی ہے کہ انسان اس تخلیق کار کی سوچ کو داد دیے بنا نہیں رہ سکتا۔ بلندی پر بادشاہ کے بیٹھے کے لیے سنگ مرمر سے بنا تخت ہے جس پر کبھی شہنشاہان معظم تخت نشین ہوتے تھے اور اپنی طاقت و اقتدار کے نشے میں چور ہو کر اپنے سے درجنوں فٹ نیچے رعایا کو بٹھایا جاتا تھا۔ جب دربار لگا کرتا تھا تو وہاں بھی یقیناً آج کے دور کی طرح کئی ترجمان (جو اس وقت درباری کہلواتے تھے) کاسہ لیسی کے لیے ہمہ وقت موجود ہوتے تھے جو بادشاہوں کی شان میں دن رات قصیدے پڑھتے، کاسہ لیسی کرتے، ان کے کانوں کو راحت بخشنے کے لیے تعریفوں کے پل باندھتے اور قصیدہ خوانی میں زمین و آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے۔
بادشاہوں کو رعایا کی زبان بند رکھنے کے لیے نت نئے قوانین بنانے کے مشورے دے کر ہتک عزت اور اس جیسے کئی خوش نما ناموں پر بل بنا کر اسے منظور کروایا کرتے تھے۔ بادشاہوں کے یہ مالشی رعایا کی زندگیوں کو شکنجے میں کسوا کر بعد میں اس وقت منادی کے ذریعے پریس کانفرنسز کیا کرتے تھے کہ اب ہمارے بادشاہوں سے ڈرا کرو اب ہمارے شہنشاہ معظم نے فلاں فلاں بل بنا دیا ہے اور اگر کسی نے گستاخی کی جرات کی تو اس کے استقبال کے لیے شاہی قلعے کےزندان شہنشاہ معظم کی پیٹھ کے نیچے پڑے ہوئے ہیں۔ آج کے دور میں بھی ویسے ہم کچھ اس سے آگے نہیں بڑھے ہر حکومت کو چند ایسے ہی چاپلوس گھیر کر بیٹھے ہوتے ہیں جو عوام کو ڈرانے اور حکمرانوں کو خوش رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔
دوسرا بڑا عقوبت خانہ دیوان عام کے عین نیچے موجود تھا۔ جس تخت پر بادشاہ سلامت تشریف فرما ہوتے تھے بالکل انکی پیٹھ کے نیچے شاہی قلعے کا ایک خوفناک عقوبت خانہ ہے۔ دیوان عام کی عمارت کی دائیں جانب سے اس عقوبت خانے میں لوگوں کو ڈالا جاتا تھا اور آگے اس کے اندر کتنی سرنگیں، کتنی چکیاں اور کتنے زندان موجود ہیں اس کا کوئی پتا نہیں کیوں کہ اس کے اندر چلے جانے کے بعد راستے آپکو کس کس جانب لیے چلتے ہیں انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔
قلعہ لاہور کی سینکڑوں سال عمر ہوجانے کے بعد 2019 میں محکمہ آثار قدیمہ کی ایک معمول کی کھدائی کے دوران شاہی حمام دریافت ہوگیا۔ اس کو دیکھنے کے لیے انسان اندر چلا جائے تو یہ گھوماتا پھراتا ایک ایسی سرنگ کی طرف لے جاتا ہے کہ جس کے آگے جانا ممکن نہیں لیکن وہ سرنگ دور تک جاتی دکھائی دیتی ہے۔
سرنگ کتنی لمبی ہے؟ کس طرف جاتی ہے؟ سرنگ کے آگے بھی کوئی زیرزمین تعمیر ہے کہ نہیں؟
ان سوالات کے جواب تاحال محکمہ آثار قدیمہ بھی ڈھونڈنے میں ناکام ہے۔ لیکن اس حمام میں آگ اور پانی کے ایک ساتھ چلنے کا جو شاندار اہتمام ہوتا تھا اس کو دیکھ کر انسانی عقل دھنگ رہ جاتی ہے اور یقیناً یہ صرف حمام نہیں ہوسکتا اس سرنگ کے آگے یا تو کوئی زندان ہے اور یا کوئی تہہ خانہ ہے جس تک تاحال محکمہ آثار قدیمہ نہیں پہنچ سکا۔
اس حمام سے لے کر مشرق کی جانب بیرونی دیوار تک مٹی کا ایک ڈھیر ہے۔ اس کے اوپر محکمہ کے ملازمین نے اپنی عارضی رہائش گاہیں بنا رکھی ہیں۔ اس جگہ پر ملبے کا ڈھیر بتاتا ہے کہ نیچے یقیناً کوئی اور بھی قدیم تعمیر ہوگی۔ اس کی کھدائی کروانی چاہیے۔ جیسے 2019 میں یہ شاہی حمام دریافت ہوا یقیناً وہاں بھی لاہور کے اس قدیم ترین قلعے کی کوئی قدیم دریافت ہوسکتی ہے۔