Shahbaz Sharif Jeet Gaya
شہباز شریف جیت گیا
یہ بات تو اب تسلیم کرنے میں کسی کو عار نہیں کہ "مجھے کیوں نکالا" سے شروع ہونے والا سفر "ووٹ کو عزت دو" سے ہوتا ہوا بلآخر شہباز شریف کی مفاہمت کی نذر ہوچکا ہے۔ مزاحمت کی ہار ہوئی، مفاہمت کی جیت ہوئی۔ نواز شریف ہار گیا، شہباز شریف جیت گیا۔ جس نواز شریف نے اپنی نااہلی اور اقتدار سے نکالے جانے کے خلاف احتجاجی تحریک سے ایک نظریاتی سیاست کا آغاز کیا تھا اور یہ تاثر دیتے پائے گئے تھے کہ ہم نے بہت اقتدار دیکھ لیا ہے، کئی بار وزارت عظمی دیکھی، وزارت اعلی دیکھی، وزارت خزانہ دیکھی اور اس کے ساتھ ساتھ کئی دھائیوں کے سیاسی تجربے کی بنیاد پر اب نواز شریف اس قوم کے اچھے مستقبل کے لیے ان رستوں پر چل کر اقتدار میں نہیں آئے گا جن پر چل کر سبھی کو آنا پڑتا ہے۔
نواز شریف آئین، قانون، جمہوریت، پارلیمنٹ، سیاسی پختگی، عوامی بالادستی اور اداروں کو آئین میں طے حدود تک محدود کر دینے کا بیانیہ لے کر عوام میں نکلے تو خوب پزیرائی حاصل کی۔
2018 میں نواز شریف کے اس مزاحمتی بیانیے کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے ہاتھ سے وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب بھی گیا لیکن نواز شریف اس بیانیے سے روگردانی کے لیے تیار نظر نا آئے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے رویے میں جارحیت بڑھتی گئی، عمران خان اور ہمنواؤں نے احتساب کے نام پر شکنجہ خوب کسا لیکن نواز شریف کا رویہ دن بدن مزید تلخ اور جارحانہ ہوتا رہا۔ یوں لگتا تھا جیسے نواز شریف فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اور وہ اب اپنی نظریاتی سیاست کو اقتدار کے عوض بیچنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہونگے۔ نواز شریف اپنی بیمار بیوی کی عیادت کے لیے لندن گئے تو پیچھے سے مریم نواز اور نواز شریف کے لیے سزا کا قید کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ اس فیصلے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس فیصلے کے بعد اس وقت کے "سیم پیج" پر سیاہی پھینکنے کی کوششوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔
نواز شریف کے لیے اپنی دکھ، سکھ، عروج و زوال اور ہر مشکل وقت میں ساتھ نبھانے والی محبوب بیوی کو قومے کی حالت میں بستر مرگ پر چھوڑ کر بیٹی کا ہاتھ تھام کر جیل میں جانے کی غرض سے واپس لوٹنا یقیناً انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔ نواز شریف نے واپس پلٹ کر اپنی اور اپنی پارٹی کی سیاست بچالی اور بیٹی کا ہاتھ تھام کر جیل پہنچ گئے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو چن چن کر جیل میں ڈالا گیا۔ جمعیت علماء اسلام کے لوگوں پر البتہ یہ شکنجہ ہزار کوششوں کے باوجود بھی کسا نا جاسکا تو مولانا فضل الرحمن نے "آزادی مارچ" کا کراچی سے آغاز کردیا اور اسلام آباد تک ایک کامیاب ترین مارچ منعقد کیا۔ اس میں عمران خان حکومت نے بھی کہیں الجھنے سے گریز ہی کیا اور بلآخر مولانا فضل الرحمن ایک بڑی تعداد کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہوئے اور تقریباً 11 دن اسلام آباد ڈیرے ڈالے رکھے۔
یہ" سیاسی جمود" کو توڑنے کا پہلا قطرہ ثابت ہوا اور مسلم لیگ ن کی دستیاب قیادت کے بھرپور ساتھ نا دینے کی وجہ سے عمران حکومت پر بہت زیادہ پریشر نا بن سکا، ہاں البتہ پس پردہ مولانا فضل الرحمن بہت سارے معاملات میں یقین دہانیاں سمیٹ کر واپس ہوئے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر "ہتھ ہولا" ہونا شروع ہوگیا اور اس کے بعد سیاسی میدان میں اپوزیشن جماعتوں کے کیے گنجائش پیدا ہونا شروع ہوئی۔
نواز شریف اور مریم نواز کو بھی ریلیف ملا اور اسی بنائے گئے پریشر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہباز شریف اپنی بھتیجی کو جیل سے باہر نکلوانے اور بڑے بھائی کو جیل سے نکلوا کر لندن پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے پی ڈی ایم تحریک کا آغاز کردیا اور ملک بھر کے طول و عرض پر جلسے کرکے عوام میں اپنا بیانیہ خوب بیچا۔
ان کا بیانیہ عوام میں اس قدر مقبول تھا کہ عمران خان کی طاقتور ترین حکومت ہر طرح کی حمایت و سہولت ہونے اور کئی جگہ پر تو الیکشن عملہ اغواء کروانے کے باوجود بھی تقریباً 27 ضمنی الیکشنز ہاری۔
عمران خان کا اپنا ووٹر، سپورٹر حتی کہ نوجوان طبقہ بھی عمران خان سے شدید نالاں ہوچکا تھا اور یہ تسلیم کرنے پر مجبور تھا کہ عمران خان اپنے وعدوں اور دعوؤں کے برعکس نکلے ہیں اور کارکردگی کے لحاظ سے ہر کوئی نالاں تھا۔ مہنگائی عوام کی چیخیں نکلوا رہی تھی اور برداشت سے کہیں بڑھ چکی تھی۔
پی ڈی ایم نے جب عمران خان کی حکومت گرائی تو اس کے بعد حالات یکسر تبدیل ہوگئے۔ پی ڈی ایم حکومت بے عوام ہر مہنگائی کے وہ پہاڑ توڑے کہ عوام ریزہ ریزہ ہوگئے۔ عمران خان نے اپنی ابلاغی صلاحیات کا بھرپور استعمال کیا اور میدان جارحیت میں اتر آئے۔ ہر ہر وہ کارڈ کھیلا جس سے عوامی ہمدردی سمیٹی جاسکتی تھی اور بالآخر وہ مقبول ترین رہنماء کے طور پر ابھر آئے۔ مقبولیت کے جال میں ایسے الجھے کے قبولیت کے دروازے ہی بند کر بیٹھے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ آتش فشاں بنتے گئے اور پہاڑ بناتے رہے بالآخر یہ آتش فشان پہاڑ 9 مئی کو ایسا پھٹا کہ عمران خان کی سیاست کو ہی اپنی لپیٹ میں لے گیا۔
شہباز شریف نے موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور بڑے بھائی کو سمجھانے میں کامیاب ہوہی گئے۔ نواز شریف وطن واپس لوٹنے کے بعد یوں لگتا ہے کہ عملی طور پر وزیراعظم تسلیم کیے جاچکے ہیں۔ الیکشن ہونا اگرچہ باقی ہے لیکن نتائج کا سب کو علم ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد بے حالات کا رخ دیکھ کر اپنا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور وہ اب حالات دیکھ کر نواز شریف کے ساتھ ملتے جارہے ہیں۔ نواز شریف کی واپسی سے پہلے تک بالکل مرجھائی ہوئی ن لیگ کے تن بدن میں جان سی آگئی ہے۔
پیپلزپارٹی اس ضمن میں اپنے ساتھ ہوئے ہاتھ پر چیختی چلاتی ضرور نظر آرہی ہے مگر 2017 میں چیختی چلاتی ن لیگ کس کو نظر آئی تھی جو اب پیپلزپارٹی آ جائے گی۔
حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ جو کل تک محرم تھے وہ مجرم ہیں اور جو مجرم تھے وہ محرم ہیں۔ آج کے محرم کب مجرم بن جائیں تو آج کے مجرم کب محرم بنا دیے جائیں یہ پلک جھپکنے کی دیر کی بات ہے۔ یہاں سب ممکن ہے ہاں مگر راستہ وہی ہونا چاہیے جو 2018 میں عمران خان نے اپنایا تھا اور جو آج شہباز شریف صاحب اپنے بڑے بھائی کی انگلی پکڑ کر ناپنے میں مصروف ہیں۔
پیپلزپارٹی کو بھی بالآخر شہباز شریف والے راستے پر ہی قدم ناپنے پڑیں گے ورنہ حالات یہ ہیں کہ ہاتھ سے سندھ بھی نکل جائے گا جیسے کل تک مسلم لیگ ن کے ہاتھ سے پنجاب نکل گیا تھا۔ آصف علی زرداری کے بیٹے کو وزیراعظم نا بنایا تو وہ خود کو صدر بنوا کر بھی راضی ہوسکتے ہیں۔
معاملات سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ اب یاران نکتہ داں کے لیے واضح پیغام ہے۔ شاعر سے معذرت کے ساتھ کہ
انہی راستوں پر چل کر اگر آ سکو تو آؤ
اقتدار کے راستے میں کہیں عوام نہیں ہے