Qazi Faez Isa Haqeeqat Ke Aaine Mein
قاضی فائز عیسی حقیقت کے آئینے میں
ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر افراط اور تفریط کا شکار ہے۔ ہم یا تو کسی تو اس حد تک پسند کرتے ہیں کہ اس کے ہر غلط کام کو اس کی اداء ناز قرار دیتے ہیں یا ہم کسی کو اس حد تک ناپسند کرتے ہیں کہ اس کے اچھے سے اچھے کام کو بھی دنیا کا سب سے بڑا غلط کام قرار دے دیتے ہیں۔ ہم یا تو افراط کا شکار رہتے ہیں یا پھر تفریط کا لیکن مجال ہے کہ ہم کسی کو اعتدال کی نظر سے بھی دیکھنے کی کوشش کریں۔
افراط حد سے زیادہ بڑھ جانے کو کہتے ہیں۔ تفریط حد سے زیادہ گر جانے کو کہتے ہیں جبکہ اعتدال حقیقت پسندی کا دوسرا نام ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں سب سے زیادہ اعتدال سے دشمنی مول لی جاتی ہے۔ ہم نا تو خود اس کمبخت حقیقت کو ماننے کے لیے تیار ہیں اور نا ہی ہمیں اس پر چلنے والا کوئی شخص اچھا لگتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بسنے والا ہر باسی یا تو نونی ہو یا پھر جنونی۔ اس کے درمیان کی حقیقت پسندی ہماری ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ قاضی فائز عیسی کو بوقت رخصت ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔
نونی ان کو تاریخ انسان کا سب سے معتبر اور بڑا قاضی ثابت کرنے پر مصر ہیں جبکہ جنونی انہیں دنیا کا بونا ترین قاضی منوانے تر تلے ہیں۔ حقیقت کی نظر میں یہ دونوں طبقات افراط اور تفریط کا شکار ہیں۔ قاضی فائز عیسی نا تو اتنے اچھے اور بڑے چیف جسٹس تھے کہ وہ دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں اور نا ہی وہ اتنے برے اور ماضی کے قاضیوں کی طرح اپنی حد سے حد درجہ تجاوز کرنے والے چیف جسٹس ثابت ہوئے۔ ایک بات مگر طے ہے کہ قاضی فائز عیسی بالکل غیر معمولی نوعیت کے چیف جسٹس تھے۔ ان کے دور تنازعات سے بھرپور دور تھا اور اسی وجہ سے تقریبا ہر روز ہی کوئی نا کوئی "نیا کٹا" کھلا رہا۔
قاضی فائز عیسی ایک بہترین خاندانی پس منظر رکھتے ہیں۔ انکے دادا قاضی جلال الدین قیام پاکستان سے پہلے ریاست قلات کے وزیراعظم تھے۔ انکے والد قاضی عیسی قائداعظم کے انتہائی قریبی اور بداعتماد ساتھیوں میں شامل تھے جو آل انڈیا مسلم لیگ بلوچستان کے بانی تھے۔ انہوں نے بلوچستان میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور قیام پاکستان کے لیے سالانہ 40 ہزار میل سفر کیا کرتے تھے۔ 1942 میں انہوں نے بلوچستان میں مسلم لیگ کا عظیم الشان جلسہ کروایا تو اس میں لیاقت علی خان انکے پاس گئے۔ 1943 میں قائداعظم بلوچستان گئے تو دو ماہ انکے گھر قیام کیا۔
1940 میں جس قرارداد پاکستان پیش ہوئی تو لاہور کے تاریخی جلسے میں انہوں نے بلوچستان کی نمائندگی کی اور جب وہ تقریر کررہے تھے تو انکی تقریر طوالت اختیار کرگئی جس پر لیاقت علی خان نے گھنٹی بجا کر انہیں وقت کی قلت کا احساس دلانا چاہا تو قائداعظم نے لیاقت علی خان کو منع کردیا اور قاضی عیسی کو تقریر جاری رکھنے دی۔
قاضی فائز عیسی نے بھی اپنے والد کی طرح وکالت کی ڈگری لندن سے حاصل کی۔ قاضی عیسی بلوچستان کے پہلے فرد تھے جو وکالت کی تعلیم حاصل کرنے لندن گئے۔ قاضی فائز عیسی 2009 میں کوئٹہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نامزد ہوئے اور بہترین چیف جسٹس ثابت ہوئے۔ 2014 میں وہ سپریم کورٹ کو جج بن گئے۔ قاضی فائز عیسی کے فیصلوں نے ہمیشہ طاقتور حلقوں کو پریشان کیے رکھا جس کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ زیادہ تر ناراض ہی رہے۔ عمران خان کے دور میں طاقتور حلقوں کی ایماء پر عمران خان نے انکے خلاف ایک جھوٹا ریفرنس دائر کیا جس سے وہ سرخرو ٹھہرے۔ قاضی فائز عیسی جب چیف جسٹس بنے تو انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا رہا۔ الیکشن 2024 کے لیے انہوں نے اپنا کردار ادا کیا اگر وہ اس وقت کردار ادا نا کرتے تو عام انتخابات مزید التواء کا شکار ہوجاتے۔
عمران خان نے قاضی فائز عیسی پر ریفرنس دائر کرکے بہت زیادتی کی تھی۔ اقتدار چلے جانے کے بعد عمران خان نے اس فیصلے کو غلط قرار دیا۔ قاضی فائز عیسی تحریک انصاف کے معاملے میں البتہ خاصا سخت اور کرخت نظر آئے۔ الیکشن سے پہلے انٹرا پارٹی الیکشن کیس میں تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کردیا جس پر تحریک انصاف آج تک ان پر سیخ پا ہے۔ اگر اس فیصلے کو قانون کے طالب علم کی نظر سے دیکھا جائے تو دستیاب شواہد کی بنیاد پر اس وقت کا وہ فیصلہ قانون کے عین مطابق تھا لیکن تحریک انصاف انتخابی نشان کے چھینے جانے کا تمام تر قصوروار قاضی فائز عیسی کو ٹھہراتی ہے۔
وہ اپنے وکلاء سے سوال نہیں کرتے کہ انہوں نے اس کیس میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور عدالتی سوالات کا جواب دینے میں ناکام رہے اور نا وہ اس وقت کی دستیاب قیادت سے سوال کرتے ہیں کہ بار بار آپ لوگوں کو وقت ملنے کے باوجود آپ لوگوں نے پارٹی انتخابات کے لیے کسی جگہ اجلاس منعقد کیوں نا کروایا۔ تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھینے جانے پر اکیلا قاضی فائز عیسی کو قصوروار ٹھہرانا بھی بددیانتی ہے۔ اس فیصلے میں قاضی فائز عیسی کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ ماضی کے چیف جسٹس ثاقب نثار، آصف کھوسہ یا عمر عطاء بندیال کی طرح بلاوجہ ہی عمران خان پر صدقے واری کیوں نہیں گیا۔ وگرنہ پارٹی نشان چھن جانے کے پیچھے تحریک انصاف کی دستیاب قیادت کی سستی و کاہلی، الیکشن کمیشن کی تحریک انصاف کے ساتھ سختی اور تحریک انصاف کے وکلاء کی ناکامی تھی۔
قاضی فائز عیسی پر نونہالان انقلاب کا دوسرا اعتراض تحریک انصاف کے اوپر ہونے والی زیادتیوں کو نا روکنا ہے۔ قاضی فائز عیسی نے تحریک انصاف کے ساتھ بالکل ماضی کے ججز کی طرح لاڈ پیار والا معاملہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کو بالکل آئین، قانون اور جمہوریت کی رو سے الگ الگ رکھا ہے۔ قاضی فائز عیسی سے پہلے والے تمام چیف جسٹسوں نے اس عہدے کو سیاہ و سفید کا مالک بنایا ہوا تھا۔ وہ سبزی کے ساتھ دھنیا مفت نا دینے کو بھی ملکی مفاد کو اہم ترین مسئلہ بنا کر بیٹھ جاتے تھے جبکہ قاضی فائز عیسی نے اس معاملے میں انتظامیہ اور مقننہ کے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے گریز کیا۔
تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں والے معاملے میں قاضی فائز عیسی کا موقف ظالمانہ نظر آتا ہے۔ میں خود بھی مخصوص نشستوں والے معاملے میں قاضی فائز عیسی کا موقف متعصبانہ سمجھتا ہوں لیکن اس کہانی کا دوسرا رخ بھی ہے۔ فرض کیجئے کہ قاضی فائز عیسی ماضی کے چیف جسٹسوں والی روایت کو قائم رکھتے ہوئے بنچز بنانے کا اختیار بھی اپنے پاس رکھتے اور کیسز لگانے کا اختیار بھی اپنی مٹھی میں رکھتے تو پھر کیا ہوتا؟
یار لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ قاضی فائز عیسی کا موازنہ ثاقب نثاروں، عمر عطاء بندیالوں یا آصف سعید کھوسوں جیسے ججز کے ساتھ کیا جائے گا نا کہ قرون اولی کے منصفوں کے ساتھ۔ اگر قاضی فائز عیسی بھی ماضی کے ججز کی طرح یہ تمام تر اختیارات اپنے پاس رکھتے تو نا کبھی فل کورٹ بنتا اور نا کبھی مخصوص نشستوں والا فیصلہ آتا۔ قاضی فائز عیسی نے جمہوریت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی رائے کو مختلف ہونے کے باوجود فل کورٹ بنچز تشکیل دیے جبکہ ماضی میں مسلم لیگ ن فل کورٹ کھ لیے ترلے کر کرکے تھک جایا کرتی تھی لیکن بندیال صاحب اپنی مرضی کے بنچ کے علاوہ کوئی بنچ تشکیل نا دیتے تھے۔ قاضی فائز عیسی کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن فل کورٹ تشکیل دینا اور اپنی رائے کے خلاف فیصلے کو آمرانہ طریقے سے ماضی کے ججز کی طرح نا روکنا ان کا شاندار کارنامہ ہے۔
ماضی میں کسی چیف جسٹس کو آج تک جرات نا ہوسکی کہ وہ کسی آمر کو سزا سنا سکے بلکہ ماضی کے قاضیوں نے ہمیشہ آمروں کے لیے راستے ہموار کیے اور ان کو جواز فراہم کیے لیکن قاضی فائز عیسی نے مشرف کو سزائے موت کا فیصلہ بحال کرکے آئندہ کے لیے ملک میں ہمیشہ کے لیے مارشل لاء کا راستہ روک دیا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جب وہ شخص مرچکا ہے تو اس کو دی گئی سزا کا فیصلہ بحال کرکے کیا ہوگا؟ انہیں علم ہونا چاہئے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ خود ایک قانون کی حیثیت رکھنا ہے لہذا اگر وہ شخص مر بھی چکا ہے تو آئیندہ یہ قانون بن چکا ہے کہ کسی بھی آئین شکنی کی سزا موت ہے۔ قاضی فائز عیسی نے عدلیہ کے چہرے پر لگی ایک اور کالک کو دھونے کی کوشش کی کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو غلط فیصلہ قرار دیا اور تسلیم کیا یہ یہ عدلیہ نے اس وقت ظالمانہ فیصلہ دیا تھا۔
قاضی فائز عیسی سے نالائق قسم کے وکلاء کو ہمیشہ کوفت رہی کیونکہ وہ عدالتی تاریخ میں واحد جج تھے کہ جو سب سے زیادہ سوالات کیا کرتے تھے۔ نالائق اور کم علم لوگ ان کے سوالات کے آگے چند منٹ بھی نا ٹھہر پاتے تھے۔ وکلاء آس پاس کے ممالک کی مثالیں دے کر جب ریلیف لینے کی کوشش کرتے تھے تو قاضی فائز عیسی سے ہمیشہ ڈانٹ کھاتے تھے کیونکہ وہ کہا کرتے تھے کہ آس پاس کی مثالیں دینے کی بجائے وکلاء کو اپنے ملک کے آئین اور قانون کا سہارا لینا چاہئے۔
قاضی فائز عیسی کے بہت سارے فیصلے غلط ہوسکتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ انکا رویہ ویسا مشفقانہ نہیں تھا جیسے ماضی لے چیف جسٹسوں کا تھا اور نا ہی وہ ویسے لاڈ لڑا سکے جیسے انہوں نے لڑوائے تھے لیکن قاضی فائز عیسی ماضی کے تمام قاضیوں سے بہت بہتر تھے۔ ہمیشہ آئین کو مقدم رکھا اور خود کو آئین کے تابع۔ انہوں نے گرمیوں کی چھٹیوں والی دھائیوں سے چلتی روایت توڑی۔ پارلیمان کے آئین و قانون سازی کے حق کو تسلیم کیا۔ ذاتی اختیارات کو ساتھی ججز میں تقسیم کیا۔ بلٹ پروف گاڑیاں نہیں لیں۔
رعونت دکھانے کی بجائے برداشت دکھائی اسی وجہ دکھائی۔ بدتمیزی اور بدتہذیبی کو بھی برداشت کیا ورنہ ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں کہ اگر کوئی کسی جج پر انگلی اٹھاتا تو اگلے روز توہین عدالت کی کاروائیوں کا سامنا کررہا ہوتا ہے۔ درجنوں بڑے بڑے لوگ نشان عبرت بنا دیے جاتے تھے جن کا قصور محض جج پر لب کشائی ہوتا تھا۔ انہوں نے پروٹوکول نہیں لیا۔ آخری روز بھی سرکاری خزانے سے 25 30 لاکھ کا ظہرانہ لینے سے انکار کردیا جس پر مجبورا ساتھی ججز نے اپنی جیب سے انہیں ظہرانہ دیا۔