Pakistan Ka Aeeni Mustaqbil
پاکستان کا آئینی مستقبل
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کی طویل جلاوطنی اور بار بار اقتدار سے نکالے جانے کی وجہ سے ان میں کچھ سیاسی بلوغت کا اضافہ ہوچکا تھا اور "میثاق جمہوریت" کے قرطاس پر متفق ہوکر ان سیاسی جماعتوں نے آئیندہ کے لیے سیاسی میدان میں ہی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے منتخب وزیراعظم کے خلاف کالا کوٹ پہن کر عدالت میں پہنچ جانا میاں نواز شریف کی میثاق جمہوریت کے بعد پہلی غلطی تھی۔ نجانے انہیں اس کا ادراک ہے یا نہیں لیکن انہیں اتنا ضرور یاد ہوگا کہ چند سال بعد انہیں بھی بالکل اسی طرح اقتدار سے الگ کردیا گیا۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سیاسی اختلافات اور شہباز شریف کے آصف علی زرداری کو "سڑکوں پر گھسیٹنے" والے "اشتعال انگیز" بیانات کے باوجود یہ دونوں اور اس وقت کی دوسری پارلیمانی سیاسی جماعتیں بھی بہرکیف اس بات پر متفق نظر آتی تھیں کہ سیاست صرف سیاسی جماعتوں کا کام ہے اور سیاسی مخالف کے باجود ہم پارلیمانی سیاسی جدوجہد کے علاوہ کوئی دوسرا سہارا تلاش کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
مشرف دور میں کی گئی قانون سازی کو ختم کرنے کے لیے دونوں جماعتوں کے اتفاق کے بعد ان قوانین کے تحفظ کے لیے "جیوے پاکستان" نامی ایک تحریک شروع ہوگئی۔ جیوے پاکستان کا دفتر اسلام آباد کے پورش علاقے میں قائم ہوا جس میں اس کی قیادت کو ملنے اس وقت کی ایک طاقتور ترین شخصیت بھی جایا کرتی تھی۔
جیوے پاکستان نے ملک گیر سرگرمیوں کا آغاز کردیا اور بلدیاتی ایکٹ اور پولیس آرڈر 2002 کو نا چھیڑنے کے مطالبات کیے۔ جیوے پاکستان کی قیادت کو عمران خان کو ساتھ ملانے کے لیے کہا گیا جس پر انہوں نے مشروط طور پر ان کو اپنے ساتھ شامل کرلیا۔
چند ماہ کے دوران ہی جیوے پاکستان کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے والے لوگوں کو لاہور بلا کر عمران خان بلدیاتی اداروں کے حوالے سے کنونشن کرتے پائے گئے اور جیوے پاکستان کی قیادت ہاتھ ملتی حیران و پریشان رہ گئی۔
یہ تحریک انصاف کی پاور پالیٹکس کا نقطہ آغاز تھا جس کے بعد مینار پاکستان کے سائے تلے پاکستان تحریک انصاف سے تاریخی جلسہ کروایا گیا اور اس کے بعد میڈیا کو حکم ہوا کہ عمران خان کو اب سے معمول سے ہٹ کر میڈیا کوریج ملے گی۔
عمران خان کا لاڈلہ پن آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اور اگلے دو سال میں عمران خان کے لیے ہر وہ بندوبست کیا گیا جس سے عمران خان جلد ازجلد مقبول ہوسکے۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ سترہ سال میں ایک سیٹ سے آگے نا بڑھنے والے عمران خان کی کے پی میں حکومت بھی بن گئی اور پنجاب میں 24 سیٹیں لینے کے ساتھ ساتھ وفاق میں بھی 28 سیٹیں لینے میں کامیاب ہوگئے۔
2013 کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے بھرپور سہولت کاری کے ساتھ جارحانہ احتجاجی سیاست کا آغاز کردیا۔ اس کام میں ان کی معاونت کرنے کے لیے علامہ طاہرالقادری صاحب بھی تشریف لے آئے اور اگست 2014 میں دونوں سیاسی کزنز اپنے ورکرز کے ہمراہ لاہور سے اسلام آباد کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔
پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے اس نئی طرز سیاست سے مکمل طور پر اختلاف کیا اور اس وقت کی تمام پارلیمانی جماعتوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف کو ڈٹ جانے اور اس غیر جمہوری رویے کے آگے نا جھکنے کا درس دیا۔
سب سیاسی قائدین پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس کی مذمت کرتے نظر آئے اور اس وقت کی اپوزیشن و حکومت مکمل طور پر ایک پیج پر نظر آئی۔
سیاسی جماعتوں نے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں آکر اپنے معاملات درست کرنے اور مل بیٹھ کر اختلافات حل کرنے پر زور دیا لیکن عمران خان صاحب امپائر کی انگلی کی امید لیے 126 دن کے طویل ترین دھرنے میں اسلام آباد بیٹھے رہے۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنماء اور عمران خان کے ہمسائے و قریبی دوست اعتزاز احسن نے بھی پارلیمنٹ کے اجلاس میں عمران خان کے اس روہے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ "کل کو کوئی دوسری جماعت جتھہ لے کر آگئی کہ کسی دوسری جماعت کو کافر قرار دیں تو اگر آج یہ روایت پڑ گئی تو کل کو وہ بھی کرنا پڑے گا"۔
تمام سیاسی جماعتوں کی سیاسی بلوغت کی وجہ سے عمران خان 126 دن کا طویل ترین دھرنا دینے کے باوجود حکومت کا بال بھی بیکا نا کرسکے اور ناکام واپس پلٹنا پڑا۔
نواز شریف کو البتہ اس کے بعد عدالت کے ذریعے سے نکال دیا گیا اور وہ جی ٹی روڈ سے ہوتے ہوئے واپس لاہور پہنچ گئے اور ملک بھر میں جلسے کرنے شروع کردیے جس میں"مجھے کیوں نکالا" کے سوال کرنے شروع کردیے۔ نواز شریف نے گزشتہ دنوں قوم سے شکوہ کیا کہ جب مجھے نکالا گیا تو یہ قوم میرے ساتھ کیوں کھڑی نا ہوئی؟
میرے خیال سے میاں صاحب بھول رہے ہیں کہ قوم تو آپکے ساتھ جی ٹی روڈ سے لے کر "مجھے کیوں نکالا" کے ہر جلسہ تک کھڑی تھی۔ قوم تو تب بھی آپ کے ساتھ کھڑی تھی جب آپ ججز بحال کروانے کے لیے لانگ مارچ کرنے نکلے تھے۔ قوم نے 2018 میں بھی ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی حکومت کو مسلسل دوسری دفعہ مینڈیٹ دیا تھا وہ الگ بات ہے کہ انتہائی فرسودہ، آزمودہ اور بیہودہ طریقے سے حکومت عمران خان کی بنوا دی گئی۔ قوم نے عمران خان کے اقتدار کے سورج کے سوا نیزے پر ہونے کے باوجود آپکو درجنوں ضمنی الیکشنز جتوائے۔
میاں صاحب! قوم تو آپکے ساتھ آخری دم تک کھڑی تھی حتی کے آپکے ملک سے باہر چلے جانے کے بعد بھی جب پی ڈی ایم کی تحریک کا آغاز ہوا تو قوم آپکے بھائی اور آپکی بیٹی کے ساتھ کھڑی تھی۔ قوم تو اس دن بھی آپکے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے نکلی تھی جس دن آپ سزا کاٹنے کے لیے لاہور پہنچ رہے تھے۔ وہ الگ بات ہے کہ آپکے بھائی ہی اس قوم کی قیادت کرنے کے لیے نہیں نکلے تھے۔ قوم تو عدم اعتماد تک آپ کے ساتھ کھڑی تھی لیکن جب آپ کے بھائی نے آپ کے کیے ہوئے وعدوں پر پانی پھیر دیا تو پھر قوم نے بھی 2024 کے الیکشن بیلٹ پر اس کا غصہ نکالا۔
سولہ ماہ کی بدترین کارکردگی نے جب قوم کا لہو نچوڑدیا اور آپ اور آپکے بھائی جان "نادان گڑ پڑے سجدے میں جب وقت قیام آیا" کے مصداق بن گئے تو قوم نے پھر آپ سے منہ موڑ لیا۔
آپ نے کہا تھا کہ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے، اقتدار بھی کئی بار دیکھ چکے ہیں، اب اقتدار کا کوئی لالچ نہیں ہے، اب اب اس قوم کا مستقبل سنوارنا کے اور یہاں آئین و قانون کی بالادستی قائم کروانی ہے۔ آپ نے کہا تھا کہ اب میری زندگی کا مقصد صرف سویلین بالادستی ہے۔ لیکن اقتدار کی چمک نے آپکو اور آپکی پارٹی کو ہی بھٹکا دیا۔
شکوہ قوم کا آپ سے بنتا ہے یا آپ کا قوم سے؟
ضرور سوچیے گا۔
دوسری طرف پی ٹی آئی نے بحالی آئین تحریک کا آغاز محمود اچکزئی کی قیادت میں کیا ہے۔ جی ہاں وہی محمود اچکزئی جن کا مذاق عمران خان نے ڈوپٹہ اوڑھ کر اڑایا تھا اور اپنی پارٹی کو جلد از جلد مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل جانے کی تاکید کررہے ہیں۔ جی ہاں وہی مولانا فضل الرحمن جن کو عمران خان مولانا کہنا بھی گناہ سمجھتے تھے اور فضلو، ڈیزل اور ناجانے کس کس نام سے پکارا کرتے تھے۔
مزید یہ کہ اس کی بھاگ دوڑ ایوب خان کے پوتے عمر ایوب کے ہاتھ میں ہے کہ جس نے آج تک اپنے دادا کی آئین شکنی پر ایک لفظ نہیں کہا۔ اس جنگ کو اقتدار کی جنگ تو کہا جاسکتا ہے البتہ آئین کی بالادستی کا مذاق اب نا ہی کریں تو اچھا ہے۔