Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raheel Moavia
  4. Mafahmat Mein Hai Sab Ki Jeet

Mafahmat Mein Hai Sab Ki Jeet

مفاہمت میں ہے سب کی جیت

انائیں جب حد سے بڑھ جائیں تو پھر امن، سکون اور انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن جاتی ہیں۔ ملکی سیاست میں سوائے اناوں کی تسکین کے کوئی دوسرا جھگڑا نظر نہیں آتا۔ حزب اختلاف سیاسی عدم استحکام کو دوام بخشنے میں اور حزب اقتدار مخالفین کو تن کر رکھنے میں ہی اپنی بقاء سمجھتے ہیں۔ تحریک انصاف اس وقت دو نظریاتی گروپوں میں تقسیم ہے۔ ایک گروپ عمران خان کو بزور طاقت باہر نکلوانا چاہتا ہے تو دوسرا گروپ مل بیٹھ کر معاملات کا حل چاہتا ہے۔

ہمارے ہاں چونکہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا دور دور تک کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران بھی اختیارات سے مکمل طور پر بے اختیار ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں تمام تر پارٹی آصف علی زرداری، مسلم لیگ ن میں نواز شریف اور شہباز شریف جبکہ پی ٹی آئی میں عمران خان کے گرد گھومتی ہے۔

پارٹی کے باقی تمام رہنماؤں کا کام صرف مرکزی قیادت کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے کا کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ خوشامد اور جی حضوری ہی قابلیت کا معیار ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کو بھی اس وقت اسی مشکل کا سامنا ہے کہ پارٹی کے آئینی چئیرمین بیرسٹر گوہر کے پاس بھی فیصلہ سازی کے کوئی اختیارات نہیں ہیں۔

ڈی چوک میں ہونے والے سانحے کے بعد پی ٹی آئی کے مفاہمتی گروپ کو بالآخر مذاکرات کے اختیارات سونپ دیے گئے ہیں مگر باہر بیٹھا انقلاب پسندوں کا ٹولہ اسے وقت کے ضیاع اور مذاق سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ تحریک انصاف کی طرف سے مذاکرات کی اس کوشش کو حکومت کی جانب سے سنجیدگی سے نہیں دیکھا جارہا۔ حکومت اس سے آنکھیں چرا رہی ہے۔ حکومت کو علم ہے کہ اگر مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ گئے تو بات عمران خان کی رہائی اور 2024 کے الیکشن پر آ کر رکے گی۔

پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی سے کم قیمت پر کسی صورت مذاکرات نہیں کرے گی اور یہ سودا حکومت کو کسی صورت منظور نظر نہیں آرہا۔ معاملہ مخصوص نشستوں کا ہو یا تحریک انصاف کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت کا۔ فارم 47 اور 45 کے تعین کا ہو یا سیاسی قیدیوں کی رہائی کا۔ حکومت کسی صورت بھی لچک دکھانے کی پوزیشن میں نہیں۔

کل تک لیول پلئینگ فیلڈ مانگنے والی مسلم لیگ ن آج میدان میں مخالف ٹیم کے وجود کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہے۔ جیسے 2028 تک وزیراعظم رہنے کے پلان بنا کر عمران خان سمجھتا تھا کہ "میرے بعد صرف قیامت ہے"۔ ویسے ہی آج مسلم لیگ ن سمجھ رہی ہے کہ ہمارے بعد اب کوئی دوسرا نہیں۔ پیپلز پارٹی البتہ اس معاملہ میں کسی بہتر موقع کی تلاش میں نظر آرہی ہے۔ بلاول کو وزیراعظم بنانے کے لیے رسہ کشی مگر جاری ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ موقع بنایا جائے اور بلاول کو عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم بنوالیا جائے۔ تحریک انصاف کے ساتھ اس معاملے میں بات چیت کی کوششیں جلد شروع ہونے کا امکان ہے۔

اقتدار کی اس کھینچا تانی میں ملک اور عوام کا نقصان ہورہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ نوجوانوں کے دل سیاسی نفرت سے بھر رہے ہیں۔ کل تک ہمارا سب سے بڑا مسئلہ مذہبی انتہا پسندی تھا۔ آج ہمارا مسئلہ سیاسی انتہاپسندی بھی بن چکا ہے۔ کل تک لوگ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹتے تھے اج سیاسی لڑائی پر بھی معاملات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک دوسرے کے سیاسی وجود سے مکمل طور پر انکاری یہ سیاسی جماعتیں کیا اب جمہوریت کا نام لینے کی بھی حقدار ہیں؟

2018 کے الیکشن کے بعد جب پی ٹی آئی کے علاوہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اس بندوبست کو ماننے سے انکار کردیا اور آئینی بالادستی، سول سپرمیسی اور ووٹ کو عزت دو کی تحریک چلائی تو میرے جیسے طالب علم پرامید ہوگئے کہ اب اگلے چند سالوں میں آئینی بالادستی اس ملک کا مقدر ٹھہرے گی کیونکہ تمام قائدین ملت اس کو اب ناگزیر سمجھ بیٹھے ہیں۔ لیکن جب عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف صاحب نے عمران خان کی جگہ لے لی اور تابعداری میں عمران خان سے بھی دو قدم آگے بڑھ گئے تو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نا ہوا۔

تحریک انصاف کے انقلاب پسند دوست ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے منتظر ہیں۔ عمران خان کی رہائی کے لیے آواز اٹھانے والے رچرڈ گرینل کو ٹرمپ کے خصوصی ایلچی نامزد ہونے کو اپنی بہت بڑی فتح سمجھتے ہیں۔ انقلاب پسند دوستوں نے عالمی سطح پر عمران خان کی رہائی کے لیے تاریخ میں پہلی دفعہ اک نیا ٹرینڈ متعارف کروایا ہے۔ ریاست البتہ اس پر سخت غصے میں ہے اور اس کھیل کو حدود سے باہر نکل کر کھیلنے سے تعبیر کرتی ہے۔ تحریک انصاف کے انقلاب پسندوں کی یہ تحریک عمران خان کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافے کا باعث بن رہی ہے کیونکہ ریاست اس کو بغاوت کے کم نہیں سمجھتی۔ انقلاب پسند انصافیوں کی ضد ہے کہ ٹرمپ کے آتے ہی عمران خان کو قید رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔

انقلاب پسند انصافی عمران خان کو آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بنانا چاہتے تھے انہیں لگتا تھا کہ اس کے بعد عمران خان کو کسی کا باپ بھی جیل میں نہیں رکھ سکتا لیکن ناکامی ہوئی۔۔

امریکی کانگریس سے قراردادیں منظور کروانے والوں کا بھی یہی خیال تھا کہ اب جیل کا تالا ٹوٹنے میں کسی صورت تاخیر نہیں ہوسکتی لیکن ان قراردادوں سے رتی برابر کوئی فرق نا پڑا۔ برطانیہ کے ممبران پارلیمنٹ کے ذریعے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرواتے وقت بھی یہی دعوی کیا گیا کہ اب عمران خان کی رہائی کے آگے کوئی دیوار آڑے نہیں آ سکتی لیکن یہ کاوش بھی رہائی کا باعث بننے کی بجائے تلخیوں میں اضافے کا باعث بنی۔

انقلابی دوستوں نے پھر یہ پھبتی کس دی کہ علی امین گنڈہ پور کسی کام کا نہیں اگر وہ کے پی سے قافلے لے کر نکلے تو عمران خان کی رہائی چند گھنٹوں میں ممکن ہے۔ علی امین گنڈاپور نے کئی مرتبہ یہ نسخہ بھی آزما کر دیکھ لیا مگر "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی"۔ عمران خان کی خود فائنل کال نے "کرو یا مرو" کا تاثر دیا تو پھر نونہالان انقلاب نے یہی امید باندھی کہ اب عمران خان کی رہائی ہر صورت ہوگی لیکن وہ آخری کال بھی خونی کال بن گئی اور کئی درجن نئے مقدمے، 6 ہزار سے زائد کارکنان کی گرفتاری اور کئی جانوں کے ضیاع کے بعد اب بات یہاں پہنچ گئی ہے کہ "گولی کیوں چلائی"۔

یہ تمام تر ناکام کوششیں اور کاوشیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ عمران خان کی رہائی نا تو لشکر کشی سے ممکن ہے اور نا کسی بیرونی دباؤ سے۔ عمران خان کی رہائی بالکل ویسے ہی ممکن ہے جیسے پی ڈی ایم نے سیاسی اتحاد سے اپنی جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔۔ تحریک انصاف کو سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر معاملات آگے بڑھانا ہونگے۔ پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، جمیعت علماء اسلام اور دیگر سیاسی جماعتیں اگر تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی گواہی دینا شروع کردیں گے تو اکیلی مسلم لیگ ن کے لیے اس کا وزن اٹھانا مشکل ہوجائے گا۔

مسلم لیگ ن کو بھی اب سوچنا چاہئے کہ یہ عارضی بندوبست چند سال تو ہنسی خوشی کا سبب بن سکتا ہے لیکن بعد میں طویل رونے دھونے کا اہتمام بھی ہوسکتا ہے۔ اس ملک کی بقاء آئین و قانون کی سالمیت اور جمہوریت کی مضبوطی میں ہے۔ ن لیگ کا الیکشن بھی کئی دفعہ چوری کیا جاچکا ہے۔ آج اس کا نشانہ تحریک انصاف بنی ہے تو کل پھر ن لیگ بن سکتی ہے۔ مسائل کا حل یہ نہیں کہ آنکھیں بند کرکے بھیک میں ملے منصب کو آخری آرام گاہ سمجھ لیا جائے بلکہ "جو ہوا سو ہوا" لیکن آئیندہ کے لیے اب ایسا انتظام ضرور کرنا چاہئے کہ مستقبل میں انتخابات پر کوئی انگلی نا اٹھا سکے۔

تحریک انصاف کو بھی اب چور ڈاکو کی گردان چھوڑ کر بلوغت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ مقدمات کیسے اور کیونکر بنتے ہیں اس کا ادراک ہوجانا چاہئے۔ اگر عمران خان آج بھی خود پر بننے والے مقدمات جھوٹے، انتقام پر مبنی اور غصے کی علامت جبکہ نواز شریف اور آصف علی زرداری پر بننے والے مقدمات انکی لوٹ مار کا نتیجہ سمجھتے ہیں تو پھر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انہوں نے آج بھی کچھ نہیں سیکھا اور اگر وہ اس سارے کھیل کا راز جان چکے ہیں تو انہیں خود تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کا اعلان کرنا چاہئے اور باقی سیاسی جماعتوں کو بھی اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے کیونکہ اسی میں سب کی بھلائی اور سب کی خیر ہے اور یہی سب کی جیت کا راستہ ہے۔۔

Check Also

Benazir Bhutto Shaheed Ki Judai Ka Zakham

By Syed Yusuf Raza Gilani