Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raheel Moavia
  4. Imran Khan Ke Baad

Imran Khan Ke Baad

عمران خان کے بعد

انہیں غصہ یہ ہے کہ پنجاب کی عوام ان کے آزادی مارچ کا حصہ نہیں بنی۔ غصہ یہ ہے کہ لاہور سے صرف ایک خاتون ڈاکٹر یاسمین راشد نکلیں وہ بھی چند لوگوں کے ساتھ۔ غصہ یہ ہے کہ بندے 20 لاکھ چاہئیں تھے لیکن نکلے 20 ہزار بھی نہیں۔ غصہ یہ ہے کہ پنجاب کے صدر شفقت محمود صاحب بھی راستے میں ہی دعوتیں اڑا کر واپس پلٹ گئے۔

غصہ یہ ہے کہ کے پی کے کی عوام نے بھی اس طرح جان و مال کو ہتھیلی پر رکھ کر انقلاب لانے میں ساتھ نہیں دیا جیسے خان صاحب چاہتے تھے۔ غصہ یہ بھی ہے کہ اب پکی پکائی ہنڈیا بھی پیش نہیں کی جارہی کہ آئیے صاحب نوش فرمائیے۔ غصہ یہ بھی ہے کہ جنوبی پنجاب سے بھی کوئی قافلہ نہیں پہنچا۔ غصہ اس بات کا بھی ہے کہ 20 سے زائد ایم پی اے بھی عین وقت قیام اسلام آباد سے پشاور لوٹ گئے۔

غصہ اس بات کا بھی ہے کہ شیخ رشید احمد صاحب نے بھی مرنے مارنے اور خونی انقلاب کے بلند و بانگ نعرے مارنے کے بعد چند فرلانگ پر عمران خان صاحب کا ساتھ نہیں دیا۔ غصہ یہ بھی ہے کہ جب ان کے خلاف عدم اعتماد آئی تھی اور اگرچہ پورے ایون کا حق تھا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جس کو چاہیں ووٹ دیں مگر ان کو مجبور کیوں نہیں کیا گیا کہ آپ صرف عمران خان کو ہی ووٹ دیں۔

غصہ یہ بھی ہے کہ اتنے زیادہ لاڈ اور پیار کی عادت ڈال کر بچے کو ضدی بنایا اور پھر اس کی ضدیں پوری کرنا چھوڑ کیوں دیں۔ غصہ یہ بھی ہے کہ دھرنے کہ ناکامی کے بعد شہباز حکومت نے مستحکم ہونے کا اعلان کردیا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکیا بتا دیا کہ اب وہ کہیں نہیں جارہے بلکہ اپنی بقیہ مدت پوری کریں گے۔

غصہ یہ بھی ہے کہ اب وہ دوبارہ نکلنا چاہتا کہ لیکن کوئی اس کو گارنٹی دینے کے لیے تیار نہیں ہورہا کہ آپ آؤ آپ کے لوگوں کو ہر طرح سے سہولیات بھی ملیں گے اور یہ جو چاہے کریں مگر ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔

گویا انقلاب تو آنا تھا لیکن آگے رانا تھا۔ خان صاحب اور ان کے ٹائیگرز کے مطابق اقتدار صرف عمران خان کا حق ہے۔ پاکستان میں کسی ماں نے کوئی ایسا لعل پیدا ہی نہیں کیا کہ جو پاکستان سے مخلص ہو۔ اخلاص عمران خان صاحب پر ختم ہے۔

جب وہ اقتدار میں آ جائیں پھر عدالت کو کوئی حق نہیں کہ کوئی ایسا فیصلہ کرے جو عمران خان صاحب کی طبع نازک پر گراں گزرے۔

اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر ہر طرف اور ہر طریقے سے ان کا تحفظ کرے۔ یہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکتے تو کیا ہوا، یہ ملکی معیشت کو مکمل تباہ بھی کردیں تو ان کا حق ہے، یہ تمام دوست ممالک کو آنکھیں دکھا دیں تو کیا حرج ہے عمران خان صاحب کے ہر کام میں ان کے اخلاص کو دیکھنا ہے ان کاموں کے نتائج کیا ہیں ایسا سوچنا تو غلاموں کا کام ہے۔

جب وہ اقتدار میں آ جائیں تو اپوزیشن کو چاہئے کہ زہر پھانک لے۔ آئین اور قانون نام کی کسی شے کا کوئی وجود نا ہو بلکہ وہی آئین و قانون بنے تو جناب والی مملکت عمران خان صاحب کی زبان مبارک سے نکلے۔

ابھی حال یہ ہے کہ وہ جن کو کہتے تھے کہ نیوٹرل نا ہونا، نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔ پھر اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد کہنے لگے کہ اب ہم اسلام آباد آرہے ہیں اب نیوٹرل ہو تو نیوٹرل ہی رہنا۔

جب اسلام آباد کے لیے لوگ توقع سے بھی کہیں کم نکلے اور وفاقی حکومت نے ان کو ہر ممکن طریقے سے روکنے کی کوشش کی تو پھر تین رکنی وفد سارا دن اسلام آباد اور راولپنڈی کے چکر کاٹتے دیکھا گیا کہ "ہن ساڈی عزت رکھ لو"۔ عمران خان صاحب تو الیکشن کی تاریخ لیے بغیر واپس ناجانے کے لیے آئے تھے۔

چاہے ملک ڈوب جاتا، چاہے آگ لگ جاتی، چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہوجاتی لیکن عمران خان نے ہر حد تک جانا تھا مگر ڈی چوک میں فوج طلب کرلی گئی اور عدالت کی طرف سے توہین عدالت کی کارروائی کا خوف سر پر منڈلانے لگا اور خان صاحب واپس لوٹ گئے کہ پھر 6 دنوں کے بعد آؤں گا اور اگر تب تک میری بات نا مانی تو دیکھ لوں گا۔۔

کہتے ہوئے سنے گئے کہ وہاں لاشیں گرنی تھیں اور مجھے پتا تھا کہ میرے لوگوں کے پاس اسلحہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر اتنا ہی انسانی جانوں کا احساس ہے تو جو 7 لوگ اس دھرنے کے دوران جان سے گئے ہیں ان میں سے کس کے گھر جا کر انہوں نے ان کے لواحقین سے تعزیت کی ہے؟ ایک جلسہ میں بھگڈر مچنے سے لوگ مر رہے تھے اور موصوف اوپر تقریر فرما رہے تھے۔

لوگوں نے مرے ہوئے لوگوں کو ہاتھوں پر اٹھا کر بلند کرکے آپ کو آوازیں دیں کہ تقریر روک دیں لیکن جس شخص نے سامنے پڑی لاشوں کی وجہ سے تقریر نہیں روکی تھی اگر اسے اپنی منزل نظر آ رہی ہوتی تو اسلام آباد میں لاشیں گرتیں یا آسمان گرتا خان صاحب واپس نہیں لوٹنے والے تھے۔

اب خان صاحب پھر مقتدر حلقوں کو دھمکیاں دے کر بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ان لوگوں کو اقتدار سے نکال کر مجھے اقتدار نا سونپا گیا تو ملک تین ٹکڑے ہوجائے گا۔ ایٹمی پروگرام چھن جائے گا۔ فوج کے تباہ ہوجانے کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے اور اس سے پہلے یہ بھی فرما چکے ہیں کہ ان لوگوں کو اقتدار دینے سے بہتر تھا کہ ملک میں ایٹم بم مار کے تباہ کردیتے۔

گویا کہ اقتدار صرف عمران خان صاحب کا پیدائشی حق ہے یہ تو پچھلے 75 سال انہیں اقتدار نا دے کر اس قوم نے بہت بڑا جرم کیا ہے ورنہ تو وہ جب پیدا ہوئے تھے ان کے منہ میں چوسنی دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اس وطن عزیز کا اقتدار بھی سونپ دینا چاہئے تھا کہ عالی جاہ اب پیدا ہوچکے ہیں جو والی شغلیہ سلطنت ہیں اور اقتدار تو ان کا پیدائشی حق ہے۔

ان کے بعد تو ہر سو تباہی و بربادی ہے گویا کہ عمران خان کے بعد صرف قیامت ہے۔

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi