Imran Khan Ke 6 Nuqat Aur Sheikh Mujeeb
عمران خان کے چھ نکات اور شیخ مجیب

1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کرلینے کے بعد مجیب الرحمٰن کے چھ نکات نے نیا ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پیچھے جہاں بھارت کی سازش، ہماری انتظامی غلطیاں، یحیی خان کے غیر آئینی دور کے آمرانہ فیصلے اور مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے کی بجائے طاقت کے استعمال جیسی ٹھوس وجوہات شامل تھیں وہیں ان ساری وجوہات کی پیدائش کا باعث شیخ مجیب کی نرگسیت اور سیاسی آمرانہ رویہ بھی تھا۔
شیخ مجیب کے چھ نکات کے پیچھے بھارتی آشیرباد اور گہری سازش بھی موجود تھی۔ بھارت آج تک اکھنڈ بھارت کے تصور کا حامی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور بھارت کا رقبہ ماتا کی حیثیت رکھتا ہے اور ماتا کی تقسیم کسی صورت ممکن نہیں۔ بھارت کی پارلیمنٹ میں آج بھی ان تمام ممالک کو بھارت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ان ممالک کو بھارت میں شامل کروانے کی جدوجہد کرنا ہر محب وطن بھارتی کی ذمہ داری ہے۔
بنگلہ دیش کے عوام نے حال ہی میں ثابت کر دکھایا ہے کہ شیخ مجیب نے عوام کی طرف سے دیے گئے مینڈیٹ کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایک بڑے مسلم ملک کے دو ٹکڑے کر دینا کسی صورت مناسب عمل نا تھا۔ خوش آئند بات ہے کہ کئی دھائیوں کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دوریاں قربتوں میں بدل رہی ہیں۔ دو بھائیوں کو قریب آتا دیکھ کر بھارت تلملا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام کی طرف سے شیخ مجیب کے مجسمے توڑنا، گھر جلانا اور باقیات سے اعلان برات کرنا انتہائی غیرمعمولی واقعات ہیں۔
شیخ مجیب کے پیش کردہ چھ نکات آج تک سیاست و ریاست کے امور میں دلچسپی رکھنے والے افراد کو حیران کردیتے ہیں۔ انکے مطالبات میں پہلا مطالبہ مشرقی و مغربی پاکستان کے لیے وفاق کو انتہائی محدود اور مشروط طور پر ماننے کا تھا۔ دوسرا انتہائی احمقانہ مطالبہ وفاق کو صرف دفاع اور خارجہ امور تک محدود کردینا تھا۔ تیسرا وہ دو کرنسیوں کا نظام چاہتے تھے یا پھر مشرقی و مغربی پاکستان کے الگ الگ مالیاتی نظام کے خواہاں تھے۔ جس سے سراسر تقسیم اور تفریق پیدا ہونی تھی۔ چھوتھے نمبر پر وہ شوق رکھتے تھے کہ وفاق ٹیکس اکٹھا کرنے کی بجائے مکھیاں مارا کرے۔ پانچواں وہ وفاق سے تجارت کے تمام اختیارات لے کر ریاستوں کے حوالے کرنا چاہتے تھے تاکہ طوائف الملوکی کا ماحول پیدا ہو۔ انکا چھٹا مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز مگر خطرناک تھا کہ وہ وفاق کی بجائے ریاستوں کی الگ الگ فوج بنانا چاہتے تھے۔ مکتی باہنی نامی فوج تشکیل دے کر وہ بھارتی فوج سے اس کو تربیت بھی دلوا چکے تھے۔
عمران خان اس وقت پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنماء ہیں۔ وہ ایک لمبا عرصہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا رہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے پارٹی بنانے سے لیکر اقتدار دلوانے تک، میڈیا مینجمنٹ سے لے کر سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی تک، بیوروکریسی سے لے کر عدلیہ تک ہر طرف سے ان کی راہ میں پلکیں بچھائیں۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے امیر ترین سرمایہ کاروں سے لے کر بیانیہ بنانے والے ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین تک انہیں سر آنکھوں پر بٹھا کر لانے کا پورا انتظام ہوا۔ حتی کہ اقتدار میں آجانے کے بعد بھی فیصلہ سازی سے لے کر قانون سازی تک انہیں فیض ملتا رہا۔ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے نکالنے بات ایسی بگڑی کہ اس کے بعد ہر آنے والے دن نے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک دوسرے سے دور کردیا۔
پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے اس موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ دس سال مسلسل اسٹیبلشمنٹ کے گیت گانے اور انکی طرف سے دی جانے والی ہر سہولت سے فائدہ اٹھانے کے بعد عمران خان کو وہ اب ہر برائی کی جڑ نظر آتے ہیں۔ عمران خان کی احتجاجی تحریک اور مقتدرہ کا اسے روکنے کی کوششوں نے اس لڑائی کو نکتہ عروج پر پہنچا دیا ہے۔ عمران خان اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو اکثر یحیی خان کے دور سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ماضی میں شیخ مجیب کے ناقد ہونے کے باوجود وہ آج اسے کسی ہیرو سے کم نہیں سمجھتے۔ وہ اچھے سے سمجھتے ہیں کہ مقتدرہ سے صلح میں بار بار ناکامی نے انہیں ابھی تک جیل میں قید کر رکھا ہے۔ وہ الیکشن 2024 کے نتیجے میں بننے والی حکومت، 9 مئی کے بعد کی گرفتاریوں اور اب تک کی تمام سختیوں کی وجہ بھی مقتدرہ سے لڑائی کو ہی سمجھتے ہیں۔
جب وہ جیل سے باہر تھے تو وہ جنرل باجوہ سے صدر علوی کے ذریعے ملاقاتیں کرکے دوبارہ سے ماضی جیسے تعلق کے خواہاں تھے چاہے اور بدلے میں تاحیات توسیع دینا چاہتے تھے۔ جب وہ ریٹائرڈ ہوگئے تو نئے آنے والے سپہ سالار کو پیغامات بھیجتے رہے اور کال نا اٹھانے کے شکوے کرتے سنائی دیے۔ گرفتاری کے بعد بھی بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈاپور پور کے ذریعے مذاکرات کی سر توڑ کوششیں ہوئیں۔ مذاکرات کا مثبت جواب نا آنے پر وہ بار بار انقلابی بن کر اپنی مقبولیت، احتجاج، دھرنے اور مذاہمتی تحریک کی دھمکیاں بھی دیتے رہے لیکن بقول شاعر
نظر انداز کیے جانے پہ حیرت کیسی
کر چکے ترک تعلق تو شکایت کیسی
معاملات طے نا پانے کے بعد بالآخر عمران خان خود ایک عدد کھلا خط لکھ کر سوشل میڈیا پر ڈلوا چکے ہیں۔ خط کا جواب نا آنے پر وہ یاددہانی کے طور پر دوسرا خط بھی لکھ چکے ہیں اور اس خط کے متن کو وہ چھ نکات قرار دے رہے ہیں۔ شیخ مجیب اور عمران خان کے چھ نکات میں "چھ نکات" کے علاوہ اور کوئی مماثلت موجود نہیں ہے۔ عمران خان خط میں اپنے اور اپنی جماعت کے لیے مقتدرہ کی پالیسیوں پر نظر ثانی چاہتے ہیں۔ وہ 2024 کے الیکشن میں بننے والی حکومت کو جبر، دھونس اور دھاندلی کی پیداوار قرار دلوانا چاہتے ہیں لیکن 2018 میں اسی طریقے سے خود اقتدار میں آنے کو وہ آج بھی غلط نہیں سمجھتے۔
جیل میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں جو بالکل ختم ہونی چاہئیں۔ جس میں قید تنہائی، سورج کی روشنی کا نا پہنچنا، سیل کی بجلی بند رہنا، بیٹوں سے بات نا کروانا، ملاقات کے لیے مزید لوگوں کو اجازت نا دینا اور بشریٰ بی بی سے ملاقات نا کروانا شامل ہیں۔ عمران خان چھبیسویں آئینی ترمیم کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ 9 مئی اور 26 مئی کے بعد گرفتار ہونے والے پارٹی کارکنان کی رہائی اور کیسز سے نجات چاہتے ہیں۔ پیکا ایکٹ لگا کر آزادی اظہار رائے کے خاتمے پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی استعمال بند کرکے اپنی آئینی حدود میں چلے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن حیرت مگر یہ ہے وہ ابھی بھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر بات کرنے کی بجائے براہ راست مقتدرہ کو ہی اپنے ساتھ کیوں ملانا چاہتے ہیں؟
وہ یہی خط شہباز شریف، نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان جیسے سیاست دانوں کو لکھ کر ان مسائل کا دائمی حل کیوں نہیں چاہتے؟ وہ 2024 کے الیکشن چرائے جانے پر بالکل اسی طرح سیخ پا ہیں جیسے 2018 کا الیکشن چرائے جانے پر نواز شریف تھے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اس چوری کو روکنے کا مستقل حل چاہنے کی بجائے آج بھی اس پر صرف اپنا ہی حق کیوں برقرار رکھوانا چاہتے ہیں؟
عمران خان کے چھ نکات کا دوسری طرف سے آنے والا جواب مظفر وارثی کے الفاظ میں
ان کا خط آنے سے تسکین ہوئی تھی دل کو
جب یہ دیکھا کہ لکھا کیا تو لکھا کچھ بھی نہیں

