Gehre Zakham Khate Hain, Phir Bhi Muskurate Hain
گہرے زخم کھاتے ہیں، پھر بھی مسکراتے ہیں
اسرائیل کی حالیہ غیر انسانی، ظالمانہ اور سفاکانہ بربریت کوجواز فراہم کرنے کے لیے کچھ لوگ الٹا فلسطینیوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ "انہوں نے پنگا کیوں لیا؟"
سوال یہ ہے کہ وہ گذشتہ 90 سالوں سے جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں ان کے لیے دنیا نے سکون کا بندوبست کب کیا ہے؟ اسرائیل کی حالیہ بربریت، سفاکیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا جواز اگر یہ ہے کہ یہ جنگ خود فلسطینیوں نے شروع کی ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ حالت جنگ سے نکلے کب تھے؟ جو انہوں نے دوبارہ مسلط کرلی ہو۔
دنیا فلسطینیوں کو "مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر" کے مصداق مورد الزام تو ٹھہرا رہی ہے لیکن کچھ سوالوں کے جواب الٹی لٹک کر بھی نہیں دے سکتی۔
2008 سے 2020 تک کے 12 سالوں میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار دو اننانوے فلسطینیوں کا اسرائیل نے وجود ہی ختم کردیا۔ جن میں حاملہ مائیں، دود پیتے بچے اور بڑھے مرد و خواتین کی بھی تمیز نہیں برتی گئی۔ ان 12 سالوں میں اسرائیل کے پانچ ہزار آٹھ سو نوے لوگ جان سے گئے۔
سوال یہ ہے کہ صرف ان 12 سالوں میں اتنے بڑے پیمانے پر نسل کشی کا سامنا کرنے والوں کو مورد الزام ٹھہرانا کون سی انسانیت ہے؟ یہ اعداد و شمار صرف 12 سال کے ہیں 90 سالوں میں کتنے لاکھ لوگ لقمہ اجل بنے ہوں گے اس کا تصور آپ خود کریں۔
جن کی نسلیں مٹ رہی ہوں، باغات لٹ چکے، زمیں چھن چکی ہوں، عزتیں تار تار ہوچکی ہوں ان کا اپنی بقاء کی جنگ لڑنا غلط ہے یا ان پر ان ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے کا بھی کوئی جرم ہے؟
1914 میں اس خطے کے 97.50 فیصد رقبے کے مالک مسلمان تھے یہودیوں کے پاس صرف 2.5 فیصد رقبہ تھا۔ بیت المقدس مسلمانوں کے زیرانتظام تھا لیکن کبھی کسی یہودی کو عبادت کرنے سے نہیں روکا گیا۔ 98 فیصد آبادی مسلمان تھی جبکہ یہود آبادی 2 فیصد تھی۔
جنگ عظیم اول میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد یہ علاقہ برطانیہ کے قبضے میں آگیا۔ برطانیہ نے اس میں غیر انسانی اور غیر فطری جبر و زیادتی کا آغاز کردیا۔ اس خطے کا کمشنر ایک متعصب یہودی کو بنایا گیا جس نے ناانصافیوں کی ایک الگ ہی تاریخ رقم کی۔
ہزاروں سالوں سے وہاں رہنے والوں سے ان کی زمین، مکان، باغات اور کاروبار چھیننا شروع کردیا۔ بہانے بہانے سے مسلمانوں کی جائیدادیں ہتھیائی جانے لگیں۔ مسلمانوں کو اس خطے سے علاقہ بدر کیا جانے لگا۔ تیزی سے اس خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ برطانیہ نے اس عمل کو باالفور ڈیکلریشن کا نام دیا۔
یہودی کمشنر نے مسلمانوں سے آلات زراعت بھی چھین لیے۔ درانتی، کسی اور ہل رکھنے کے جرم میں بھی ان کی جائیداد ضبط کرلی جاتی تھیں۔ مسلمانوں سے دفاع کا حق بھی چھین لیا گیا اور انہیں بالکل نہتے کردیا گیا۔ اس سے ہر قسم کا حفاظتی اسلحہ ضبط کرلیا گیا اور اس کو بہانہ بنا کر بھی جائیدادیں ضبط کی گئیں۔
1947 تک تیزی سے اس طے شدہ منصوبے پر عمل درآمد کیا گیا لیکن تمام تر ناانصافیوں اور زیادتیوں کے باوجود یہودی 6.5 فیصد رقبے پر قابض ہوسکے۔
1947 کو اقوام متحدہ نے اس معاملے پر نوٹس لیا تو چاہیے تو یہ تھا کہ اقوام متحدہ اس ناانصافی اور جبر کو روکتا لیکن وہاں بھی الٹا فلسطینیوں کے لیے جال تیار کیا گیا اور 1948 میں فلسطینیوں کا 55 فیصد رقبہ اسرائیل کے حوالے کردیا گیا اور نئی ریاست اسرائیل وجود میں آگئی۔
قائداعظم محمد علی جناح نے فلسطینیوں کو ڈٹ جانے کا پیغام دیا اور اسرائیل کی ریاست کو ناجائز ریاست قرار دیا۔ انہوں نے اس عمل کو امت کے سینے میں خنجر گھسانا قرار دیا۔ دنیا بھر سے یہودی مذہب کے لوگوں کو بلا کر اس فلسطین میں زبردستی گھسیڑ دیا گیا۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھر، باغات، زمینیں اور کاروبار چھین کر علاقہ بدر کردیا گیا۔
1948 میں افغانستان میں پانچ ہزار یہودی آباد تھے لیکن 2019 میں صرف ایک رہ گیا۔ ایران میں ایک لاکھ سے زائد آباد تھے جبکہ 2016 میں صرف اٹھانوے سو رہ گئے۔ عراق میں ڈیڈ لاکھ سے زائد مقیم تھے لیکن 2017 میں صرف دس رہ گئے۔ تنیزیا میں ایک لاکھ پانچ ہزار یہودی آباد تھے جبکہ 2017 میں صرف سترہ سو رہ گئے۔ الجیریا میں ایک لاکھ چالیس ہزار یہودی آباد تھے لیکن 2017 میں صرف 50 رہ گئے۔ لیبیا میں اٹھتیس ہزار یہودی رہتے تھے لیکن۔ 2019 میں ایک بھی نا رہا۔
لبنان میں چوبیس ہزار یہودی مقیم تھے 2017 میں وہاں صرف ایک سو رہ گئے۔ مصر میں پچھتر ہزار یہودی رہتے تھے لیکن 2017 میں صرف 20 رہ گئے۔ شام میں تیس ہزار یہودی آباد تھے لیکن 2017 میں صرف بیس رہ گئے۔ موراکو میں دو لاکھ پینسٹھ ہزار میں سے 2017 تک صرف دو ہزار رہ گئے۔ بحرین میں پندرہ سو میں سے 2018 تک صرف پینتیس رہ گئے۔ یمن میں چونسٹھ ہزار میں سے 2017 تک صرف پچاس رہ گئے۔ اومان میں پانچ ہزار میں سے 2019 تک کوئی بھی نا رہا۔ پاکستان میں دو ہزار میں سے صرف سات سو پینتالیس رہ گئے۔
پچھلے پچھتر سالوں میں آبادی بڑھنے کی وجہ سے یہ لاکھوں کی تعداد کروڑوں میں پہنچنی چاہیے تھی لیکن تمام ممالک میں یہ تعداد بالکل سکڑ گئی کیونکہ وہ ان ممالک کو چھوڑ کر تیزی سے اسرائیل جابسے اور وہاں جاکر اپنی آبادکاری کی۔
دنیا کی واحد ریاست اسرائیل ہے جس کی نا تو کوئی سرحد ہے، نا کوئی علاقہ اور نا کوئی مخصوص شہری۔ اقوام متحدہ کے اپنے اصول کے تحت ہر ریاست تین بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے۔
1.اس کا اپنا علاقہ ہو۔
2.اس کی متعین سرحدیں ہوں۔
3.اس کے مخصوص شہری ہوں۔
اسرائیل اقوام متحدہ کے ان تینوں اصولوں پر پورا نہیں اترتا لیکن پھر بھی اس لاڈلے کو اپنے ہی اصول توڑ کر سینے سے لگایا جاتا ہے اور باقی بنیادی انسانی حقوق کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔
اسرائیل نے اقوام متحدہ کے دیے ہوئے 55 فیصد علاقے پر کبھی اکتفا نہیں کیا اور وہ مسلسل بچے کھچے فلسطین کے رقبے کو بھی ہڑپ کرتا رہتا ہے اور مزید گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے تحت سرعام کئی عرب ممالک پر قبضے کرنے کا خواہشمند ہے۔
آج تک اپنے مخصوص شہریوں کا تعین نہیں کرسکا بلکہ واضح اور شدت پسندانہ موقف کے ساتھ کھڑا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والا یہودی مذہب کا پیرو کار اس کا شہری ہے اور وہ اس کو وہاں بسانے کے لیے وہ کہیں پر بھی ڈاکہ مارنے سے گریز نہیں کرے گا۔
آج تک اپنے علاقے کا تعین نہیں کیا نا اس کا کوئی اپنا رقبہ کبھی تھا۔ وہ کسی سے چھینے ہوئے رقبے پر قابض ہے جو اقوام متحدہ کے اپنے ہی اصول اور ضابطے کے خلاف ہے۔
دنیا کے 42 طاقتور ترین ممالک جن میں بھارت، امریکا، برطانیہ، فرانس سمیت یورپی یونین بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس کو بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے میں مکمل معاونت فراہم کررہے ہیں۔
دنیا عالم کو اس سنگین مسئلہ پر فی الفور اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور طاقت کے گھمنڈ کو ایک طرف رکھ کر انسانی بقاء کے لیے اس مسئلے کا کوئی ٹھوس حل نکالنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے وجود میں آنے کا سب سے بڑا مقصد طاقت ور اور بڑے ممالک سے کمزور اور چھوٹے ممالک کو بچانا اور کسی قسم کی زیادتی و ناانصافی کا دروازہ بند کرنا تھا۔
اگر اقوام متحدہ خود ہی طاقت ور ممالک کے اشاروں پر ناچ کر کمزور اور چھوٹے ممالک کا استحصال کروائے گا تو یہ کہاں کا انصاف کہلوائے گا؟