Gardab Mein Phansi Mulki Siasat
گرداب میں پھنسی ملکی سیاست
میثاق جمہوریت ملکی سیاست کی بلوغت کا آغاز تھا جس نے مقتدرہ کو سیاسی معاملات سے مکمل نہیں مگر بہت دور کر دیا تھا۔ 2008 اور 2013 کے الیکشن بہرصورت مناسب الیکشن تھے اور اس وقت ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا بھرپور احترام کیا اور طے شدہ دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے سیاست کی۔ عمران خان بھی میثاق جمہوریت کا حصہ ہیں اور انہوں نے بھی اس معاہدے پر دستخط کررکھے ہیں۔
مقتدرہ نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی اس چال کو پلٹنے کے لیے عمران خان کا سہارا لیا اور نواز شریف کی منتخب حکومت کے خلاف سیاسی و انتظامی ماحول گرم کردیا۔ عمران خان نے سیاسی جماعتوں کی اس بلوغت کو مک مکا کا نام دے کر ان کو ملک دشمن، چور، ڈاکو، لٹیرے اور باریاں لینے والوں کے طور پر متعارف کروانا شروع کردیا۔ 2018 کے الیکشن میں ایک دہائی بعد پھر سے مقتدرہ کا سورج چمکا اور عمران خان اور مقتدرہ دو قالب یک جان بن کر سامنے آئے۔
جنرل فیض حمید جن بڑی سیاسی تبدیلیوں کا اہتمام کرلیتے ان کے سرانجام پانے سے چند دن پہلے بشری بی بی کو اس کی اطلاع کردیتے اور وہ مراقبہ کرکے عمران خان کو اس کی خبر دے دیتی تھیں۔ عمران خان جب بشری بی بی کی پشین گوئیوں کو من و عن پورا ہوتے دیکھ کر (جن کا درحقیقت جنرل فیض نے اہتمام کیا ہوتا تھا) بشری بی بی کی روحانیت کے گرویدہ ہوتے گئے۔ 2018 کے الیکشن میں عمران خان بالکل اسی طرح کامیاب ہوئے جس طرح 2024 کے الیکشن میں شہباز شریف وزیراعظم بنے۔
مقتدرہ عدم اعتماد تک عمران خان کو حکومت سازی سے لے کر قانون سازی تک، معیشت سے لے کر عدلیہ تک، میڈیا سے لے کر انتظامیہ تک کے تمام اہتمام کرکے دیتی رہی۔ یہ رومانوی تعلق اتنا گہرا ہوگیا کہ باقی تمام سیاسی جماعتوں کا جلسے، جلوس، دھرنے، نعرے اور جیلیں مقتدر بنی رہیں۔ عمران خان اس رومان کو اگلے دس سال تک اپنا ہی نصیب سمجھتے تھے۔ عدم اعتماد آنے تک انہیں یقین قوی تھا کہ میرے سوا مقتدرہ کے پاس اب کوئی دوسرا آپشن نہیں۔
عدم اعتماد پیش ہوئی تو عمران خان نے حسب معمول مقتدرہ کو حکومت بچانے کا اہتمام کرنے لے لیے وزیراعظم ہاؤس بلایا جہاں تحریک انصاف کے دیگر رہنماء بھی موجود تھے۔ اس میٹنگ میں مقتدرہ نے عمران خان کو تین تجاویز دیں۔
1۔ استعفی دے دیں۔
2۔ عدم اعتماد پر قانون کے مطابق ووٹنگ ہونے دیں۔
3۔ اپوزیشن عدم اعتماد واپس لے لیتی ہے تو آپ اسلمبلیاں توڑ کر الیکشن کا اعلان کردیں۔
عمران خان نے اسمبلی توڑنے والی تجویز کا مان لیا لیکن جب پی ڈی ایم کو عدم اعتماد واپس لینے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے انکار کردیا۔
حکومت جانے کے بعد عمران خان کا رویہ جارحانہ ہونا شروع ہوا تو مقتدرہ کے ہی عنایت کردہ عمران خان کے قریبی ساتھی اور پی ٹی آئی کے چند رہنماؤں نے دوبارہ معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کروانے کی کوششیں تیز کردیں۔ پی ٹی آئی نے ایک مذاکراتی کمیٹی بنائی جو فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی اور بیرسٹر علی ظفر پر مشتمل تھی۔ کمیٹی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے اور شہباز شریف کو قبل از وقت الیکشن کروانے کے لیے رضامند کرلیا۔ کمیٹی اور تحریک انصاف کے درمیان الیکشن کی تاریخ پر اتفاق ہوگیا۔
شہباز شریف نے بجٹ منظور کروانے کے بعد اسمبلیاں توڑ کر الیکشن کروانے کی حامی بھر لی۔ کمیٹی اراکین اپنی کامیابی کی یہ خبر لے کر ایوان صدر پہنچے جہاں صدر علوی، علی زیدی، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، اسد قیصر، عامر کیانی اور شیریں مزاری سمیت متعدد تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء موجود تھے۔ فواد چوہدری نے علی زیدی کو زوردار فاتحانہ جپھی ڈالی اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ شیریں مزاری کے سوا تحریک انصاف کی ساری قیادت نے اس کو بڑی کامیابی قرار دیا کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی کا بیانیہ عوام میں مقبول ہوچکا تھا جبکہ پی ڈی ایم کے حالات انتہائی نازک تھے۔
کمیٹی اراکین نے عمران خان کو خوش خبری دینے نکل پڑے تو راستے پی ہی انکی کال آگئی اور انہوں نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ عمران خان نے اس تجویز کو ٹھکرا کر حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کردیا اور لاہور سے اسلام آباد کی جانب مارچ کا آغاز کردیا۔
اس کے بعد ہر آنے والا دن عمران خان اور مقتدرہ کے درمیان دوریاں بڑھانے کا موجب بنا۔ خود پر ہونے والے حملے کا الزام مقتدرہ پر لگانے اور مقدمہ درج کروانے کی کوشش نے مزید آگ بھڑکائی۔ کے پی اور پنجاب کی اسمبلیاں توڑنے کے بعد عمران خان نے زمان ڈیرے ڈال لیے تو پارٹی ٹکٹ کے تمام امیدواروں کی زمان پارک میں ساتھیوں سمیت پہرے داری کی ڈیوٹیاں لگ گئیں۔ پولیس اور کارکنان کی پہلی لڑائی عمران خان کی گرفتاری کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے ہوئی۔
کارکنان کئی ماہ تک مرشدخانے پر ڈیرے ڈال کر پہرے داری کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ہمیشہ برگر سمجھے جانے والے پی ٹی آئی کارکنان نے مزاحمت کی نئی مثال پیش کی اور عمران خان کی گرفتاری کے آگے ڈھال بن کر خود فولادی کارکنان کے طور پر پیش کیا۔ ہر مزاحمت کار جب ہیرو بننے لگا اور ہر اچھا لڑنے والا جب تحریک انصاف کے بامراد ٹھہرنا شروع ہوا تو پھر کارکنان کے جذبات بھی کسی جنگجو سے کم نا رہے۔
9 مئی کے روز عمران خان کی گرفتاری کے بعد جس طرح پورے ملک میں بدترین تصادم، توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراؤ ہوا اس نے ملکی سیاست کا منظرنامہ یکسر بدل کر رکھ دیا۔ تحریک انصاف کے خلاف زمین اتنی گرم ہوگئی کہ آدھے سے زائد پارٹی رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنا پڑگئی۔ مشکل ترین وقت میں وکلاء نے پارٹی کو سہارا دیا۔ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن نا کروانے کا بہانہ بنا کر بلے کا نشان ہی چھین لیا۔ شہباز شریف نے صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبولیت نا ہونے کے باوجود قبولیت کی بنیاد پر اپنی نوکری پکی کرلی اور تحریک انصاف کے لیے سیاسی میدان میں جگہ مزید کم کردی۔
نواز شریف نے اپنے کیسز سے نجات اور بیٹی کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزیراعلٰی بنانے میں عافیت جانی اور ملکی سیاست سے دور مری کے یخ بستہ ٹھنڈے موسم میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیا۔ آصف علی زرداری نے بھی اپنے اکلوتے بیٹے کے بہتر مستقبل کے لیے عمران خان کے جیل میں ہی رہنے کو غنیمت جانا۔ تحریک انصاف نے اپنے عروج میں جن دو لوگوں کی ہمیشہ پگڑیاں اچھالیں، جنہیں عمران خان نے برے برے القابات سے نوازا اور ایک کا تو باقاعدہ ڈوپٹہ اوڑھ کر تمسخر اڑایا۔ مشکل وقت میں اسی محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کا ساتھ دیا۔
مسلم لیگ ن اپنی غیر مقبولیت کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ نواز شریف نظریات کی سیاست، ووٹ کو عزت، عوامی بالادستی، جمہوریت کی مضبوطی اور آئین کی حکمرانی جیسے تمام خواب لندن کی ہائیڈر پارک کے ایک پرانے درخت کے نیچے دفن کر آئے ہیں۔ اس جگہ کا نواز شریف کے علاوہ مریم نواز کو پتا ہے۔ اگر کبھی دوبارہ لندن جانا پڑ گیا ملکی سیاسی حالات سازگار نا رہے تو ان تمام نظریات کی قبر دوبارہ کھود لی جائے گی اور گڑھے مردے اکھاڑ کر انہیں زندگی بخشنے کی بھی بھرپور کوشش ہوگی۔ اگر تحریک انصاف نے اپنی یہی روش قائم رکھی تو پھر اسکی کوئی ضرورت پیش آنے کا امکان نہیں۔
عمران خان اپنی رہائی چاہتے ہیں لیکن اس وقت دو متضاد گروپوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ایک گروپ مغربی ممالک کے پرسکون ماحول میں بیٹھ کر ریاست کو آنکھیں دکھا کر اور کچھ خوف دلا کر عمران خان کی رہائی چاہتا ہے جبکہ دوسرا گروپ یہیں کے ناساز حالات میں پھونک پھونک کر قدم رکھ کر بات چیت کے ذریعے عمران خان کی رہائی چاہتا ہے۔ سوشل میڈیا پر سارا کنٹرول باہر بیٹھے انقلابیوں کا ہے جبکہ میدان میں موجود تحریک انصاف کے رہنماء بھی اس کا وزن اٹھانے سے کتراتے نظر آرہے ہیں۔
تحریک انصاف کے تمام مرکزی رہنماء ایک سیاسی جماعت کے آئینی عہدوں پر ہونے کے باوجود بھی مکمل بے اختیار ہیں۔ اختیار یا تو جیل میں بیٹھے عمران خان کے پاس ہیں یا پھر ملک سے باہر بیٹھے جبران الیاس کے پاس۔ دستیاب قیادت سیاسی جماعتوں اور مقتدرہ کے ساتھ بیٹھ کر عمران خان کی رہائی کروالینے کافی سمجھتے ہیں جبکہ باہر بیٹھے انقلابی عمران خان کی رہائی کے ساتھ ہی اسے مطلق العنان حکمران بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
تحریک انصاف کے اندر کی یہ جنگ عمران خان کی رہائی میں اصل رکاوٹ ہے۔ اب بات خون خرابوں تک آ پہنچی ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے انتہائی قابل مذمت حادثات اس ملک کے ہر سیاست کے طالب علم کے لیے انتہائی ڈراؤنے اور تکلیف دہ ہیں۔ ہر اقتدار بچانے اور سیاست چمکانے کے لیے بات انسانی خون تک آن پہنچے تو فریقین کے سینے میں اگر دل ہو تو انہیں اپنی انائیں قربان کردینی چاہئیں۔
لیکن ابوالکلام آزاد نے کہا تھا نا کہ "سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا"، میرا خیال مگر یہ ہے کہ اب سیاست کی آنکھ میں حیاء بھی نا رہی۔