Ashrafia Bamuqabla Ghareeb Awam
اشرافیہ بمقابلہ غریب عوام

حکومت نے ہیلمٹ نا پہننے والوں کے خلاف جس شدت سے اس جواز کے ساتھ کریک ڈاؤن کیا ہے کہ اس سے عوام کی حفاظت مقصود ہے تو سب سے زیادہ جانی نقصان سوزوکی آلٹو اور اس جیسی کئی گاڑیاں کرتی ہیں جو ٹین ڈبے کے سوا کچھ بھی نہیں اور ان میں کوئی حفاظتی انتظام تک نہیں ذرا سی ٹکر سے اندر بیٹھے لوگ جان گنوا دیتے ہیں۔ ان کے خلاف کاروائی کب کی جائے گی؟ حکومت کا زور صرف غریب پر ہی کیوں چلتا ہے جہاں بات اشرافیہ کے گھر کو جائے وہاں حکومت خود انکی سہولت کار کیوں بن جاتی ہے؟
دو روپیہ روٹی مہنگی بیچنے والے ہزاروں لوگوں کو بھاری جرمانے کیے گئے اور جیلوں میں ڈالا گیا لیکن اسی گندم سے بیکری مصنوعات بنانے والوں نے پہلے سے بھی زیادہ ریٹ پر اشیاء کو فروخت کیا آپ نے سنا کہ کسی کے خلاف حکومت نے کاروائی کی ہو؟ باوجود اس کے کہ گندم کی قیمت مقرر کرتے وقت کسان کا خون نچوڑ لیا گیا اور اس کو اس کی لاگت تک بھی ادا نا ہوئی۔
گنا خریدتے وقت کسان کی کمر توڑ کر اس کے اخراجات تک پورے نا کروائے گئے لیکن چینی بنانے والی 85 شوگر ملز کے صرف چند درجن مالکان نے غریب عوام کی جیب سے ہزاروں ارب روپے نچوڑ لیے کسی ایک کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی؟ اس دوگنی قیمت پر سارا سال چینی بیچنے والے شوگر ملز مالکان اس سال گنا پچھلے سال سے بھی کم قیمت پر خرید رہے ہیں۔
گذشتہ کئی ماہ سے عالمی منڈی میں سویا بین سستا رہا جس سے یہاں گھی کی قیمتوں میں 100 روپے فی کلو تک کمی واقع ہونی چاہئے تھی لیکن مجال ہے کہ حکومت نے ایک روپیہ بھی سستا کروایا ہو اور یوں پھر چند درجن اشرافیہ کو سینکڑوں ارب روپے غریب عوام کی جیب سے نچوڑنے کا موقع بھرپور میسر رہا۔
عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی لیکن کئی سال سے حکومت فی لیٹر پیٹرول و ڈیزل پر 100 روپے سے زائد لیوی ٹیکس لے کر سالانہ ہزاروں ارب روپے عوام کی جیب سے نکال رہی ہے لیکن مجال ہے کہ کسی کو خیال آیا ہو کہ یہاں تو پہلے ہی بیروزگاری کی شرح 10 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور 45 فیصد پاکستانی خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
کس کس کا نوحہ لکھیں۔
میں یہ کس کے نام لکھوں جو اَلَم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں
حکومت غریب کو غریب تر اور محض ایک فیصد اشرافیہ کو امیر سے امیر تر بنانے کے لیے دن رات کوشاں ہے۔
قومی اسمبلی کے ایک دن کے اجلاس کا خرچ 6 کروڑ سے تجاوز کرچکا ہے۔ صوبائی اسمبلی کے اجلاس کا فقط ایک روز کا خرچ کئی کروڑ روپے ہے۔ ممبران قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں کئی سو فیصد اضافہ کردیا گیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی و چئیرمین سینیٹ نے اپنی تنخواہوں میں خود ہی کئی سو فیصد اضافہ کرکے 11 لاکھ اور 22 لاکھ کرلیں۔ چئیرمین نیپرا یہاں 32 لاکھ ماہانہ تنخواہ لے رہا ہے۔ ایسے کئی درجن محکموں کے چئیرمین ہیں جن کی تنخواہیں کئی کئی ملین ہیں اور المیہ یہ کہ مراعات اس کے علاوہ اور اس سے بھی زیادہ ہیں۔ ممبران صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں میں کئی سو فیصد اضافہ کرکے 4 لاکھ کر دیں گئیں۔ وزراء کی تنخواہیں ساڑھے 9 لاکھ کر دیں گئیں اور مراعات کے نام پر قومی خزانے پر ڈاکہ الگ سے مارا جا رہا ہے۔
ججز کی طرف جائیں گے تو اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال ہے۔ فقط تنخواہیں ملینز میں ہیں جبکہ مراعات پر اس سے کئی گنا زیادہ خرچ آتا ہے۔ کارکردگی یہ کہ لاکھوں کیسز التواء کا شکار ہیں اور عالمی درجہ بندی میں 130ویں نمبر پر ہیں۔ تنخواہوں اور مراعات کا بوجھ بجٹ سے کئی گنا وزنی ہو چکا ہے لیکن فیصلہ ساز کشکول اٹھا کر آئی ایم سے بھیک مانگنے پہنچ جائیں گے مجال ہے کہ کوئی اس کا تعین کرسکے کہ اگر اس ملک میں ایک غریب انسان کو 40 ہزار روپے ماہانہ آمدن بھی میسر نہیں تو زیادہ سے زیادہ تنخواہ کی بھی تو کوئی تو حد مقرر ہونی چاہئے۔ ہماری افسر شاہی اقوام متحدہ کے ملازمین سے 12 فیصد زیادہ تنخواہ و مراعات لیتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ ششکے اس مقروض ملک کی افسر شاہی کے ہیں کہ جس پر 95 ہزار ارب روپے کا قرض چڑھ گیا ہے جو اس ملک کے ٹوٹل بجٹ سے بھی 500 فیصد زیادہ ہے۔
بیوروکریسی کی تو بات ہی نا کریں اس کے ششکوں کے آگے تو ملکہ برطانیہ کی ٹھاٹھ باٹھ بھی مانند پڑ جائے۔ المیہ یہ کے اس کے باوجود آئی ایم ایف یہ کہنے ہر مجبور ہے کہ اقوام متحدہ کے ملازمین سے بھی 12 فیصد زیادہ تنخواہ و مراعات لینے والی پاکستانی افسر شاہی پاکستان کا بجٹ زیادہ تر کرپشن کی نذر کردیتی ہے۔
یہاں ہزاروں ارب روپے کی بے ضابطگیاں ہیں لیکن جنہوں نے اس کا حساب لینا ہے وہ خود اس بندر بانٹ کے مزے لے رہے ہیں۔
جن صحافیوں کی اس پر آواز اٹھانے کی ذمہ داری ہے وہ اس وقت ٹک ٹاکرز اور سافٹ پورن مواد کے گرد گھوم گھوم بلکہ جھوم جھوم کر ویوز کی آگ میں جل رہے ہیں۔ جس اپوزیشن نے سسٹم کے اندر سے ان بے ضابطگیوں کو نکال کر اسکینڈلز بنانے ہیں ان کے شب و روز اڈیالہ جیل کے باہر گزر جاتے ہیں اور وہ وہاں شخصیت پرستی کے بینڈ باجے بجانے میں مصروف ہیں۔
آئی ایم ایف خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے بھوکے ننگے عوام پر ہزاروں ارب روپیہ ٹیکس لگانے کا اشارہ دے دے تو ایک لمحہ بھی دیر کیے بنا کر گزرنے والی حکومت اسی آئی ایم ایف کے بار بار چیخنے اور چلانے کے باوجود سرکاری افسران اور ان کے اہل و عیال کے اثاثے پبلک کرنے سے انکاری ہے جبکہ ان کے بار بار کہنے کے باوجود یہاں ٹرانسپرنسی قائم کرنے میں ناکام ہے تو کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یا اس واردات میں مکمل طور پر شراکت داری ہے؟
یہاں قانون سازی ہوتی ہے تو فقط شخصیات کے لیے۔ یہاں آئینی ترامیم آتی ہیں تو فقط مفادات کے لیے۔ کسی کو کوئی پرواہ نہیں کہ جس عوام سے ٹیکس نچوڑ کر عیاشی کرنی ہے وہ کس حال میں ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
باقی پیسوں کا کیا ہے جب ضرورت پڑے گی یا تو ڈھونڈیں گے ملکوں ملکوں یا ہزاروں ارب کے مزید ٹیکس لگا کر عوام کا لہو نچوڑ لیں گے پھر بھی پورے نا ہوئے تو ٹریفک پولیس ہے نا وہ اب ریونیو افسران کا کام کریں گے اور چالان کاٹ کاٹ کر پورا کرلیں گے۔
ریونیو افسران سے یاد آیا ابھی چند ماہ پہلے ایف بی آر کے افسران کو جو 1 ہزار سے زائد نئی اور لگژری گاڑیاں لے کر دی تھیں ان کا کیا بنا؟ کہا تو یہ گیا تھا کہ ٹیکس چوری روکنے میں ہم اس لیے ناکام تھے کہ افسران کے پاس یہ مہنگی ترین گاڑیاں میسر نا تھیں اب تو وہ بھی ہیں اب کیا ہوا؟
آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستانی اشرافیہ عرف بدمعاشیہ کو پاکستان سے سالانہ 20 ارب ڈالر کی مراعات اور ٹیکس چھوٹ لینے والا قرار دیا ہے۔۔ یہاں حکومت نے ہر دوکاندار اور صنعت کار کو ٹیکس اکٹھا کرنے کی اجازت دے رکھی ہے وہ خریداری پر اور مصنوعات کی قیمتوں میں ٹیکس ڈال کر عوام سے نچوڑ رہے ہیں لیکن کبھی حکومت نے اس بات پر غور کیا ہے کہ ایف بی آر کا کام صنعت کار اور دوکاندار کرے گا تو حکومت کے پاس کون سے الہ دین کا چراغ ہے جس سے وہ ان سے پورا ٹیکس وصول کرلے گی؟ اگر وہ ارب روپیہ ٹیکس جمع کرکے حکومت کو محض دو کروڑ روپیہ ادا کرے تو حکومت کے پاس ایسا کوئی انتظام نہیں کہ اس کا حساب کرسکے۔۔
خدارا اصلاحات لانی ہیں تو ڈائریکٹ ٹیکس اکٹھا کرنے میں لائیں باقی ڈرامے اب بند کریں۔

