Hum Apno Mein Muqam Kyun Kho Rahe Hain?
ہم اپنوں میں مقام کیوں کھو رہے ہیں؟
وقت گزرنے کے ساتھ دنیا نے بے پناہ ترقی کی ہے۔ ٹیکنالوجی نے فاصلوں کو مٹا کر رابطے آسان بنا دیے، لیکن ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ جتنی قربتیں اسکرین پر نظر آتی ہیں، اتنی ہی دوریاں دلوں میں بڑھ گئی ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے بے شمار ذرائع رکھتے ہیں، مگر ایک دوسرے کو سمجھنے اور سننے کا حوصلہ کم ہوگیا ہے۔ آج ہمارے دلوں میں وہ اپنائیت اور مقام کیوں نہیں رہا جو کبھی ہماری پہچان ہوا کرتا تھا؟ یہ سوال محض جذباتی سوچ نہیں بلکہ ایک سنگین معاشرتی المیہ ہے۔
ماضی میں گھروں کا ماحول ایسا ہوتا تھا جہاں بڑے چھوٹوں کو دعائیں دیتے، چھوٹے بڑوں کا ادب کرتے اور پڑوسی ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے۔ آج ہمارے معاشرے میں یہ روایتیں کمزور ہوگئی ہیں۔ وجہ شاید یہ ہے کہ ہم نے مادیت کو جذبات پر ترجیح دینا شروع کر دی ہے۔ اب لوگوں کے لیے کامیابی کا معیار محبت یا خلوص نہیں بلکہ دولت اور شہرت بن گیا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے ہم اپنوں سے دور ہونا شروع ہوئے۔
ہم اپنوں میں مقام تب کھوتے ہیں جب ہم ان کی قدر کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ آج ہم ملاقات کے بجائے میسج پر سلام کرنے کو کافی سمجھتے ہیں۔ ہم وقت دینے کے بجائے تحفے بھیج کر فرض پورا سمجھ لیتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دلوں کے رشتے وقت، توجہ اور خلوص سے جیتے جاتے ہیں، محض الفاظ یا اشیاء سے نہیں۔
رشتوں میں دوری کی ایک بڑی وجہ ہماری خود غرضی بھی ہے۔ ہم نے دین اور معاشرت دونوں کی وہ تعلیمات بھلا دی ہیں جو ہمیں دوسروں کا خیال رکھنے، معاف کرنے اور ایثار کرنے کا سبق دیتی تھیں۔ ہم اپنی انا کے قیدی ہو چکے ہیں۔ اگر کسی عزیز سے معمولی غلطی ہو جائے تو ہم اسے معاف کرنے کے بجائے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ انسان کامل نہیں ہوتا، لیکن رشتہ کامل بن سکتا ہے اگر ہم صبر اور برداشت کو اپنا لیں۔
سوشل میڈیا نے بھی ایک نیا تضاد پیدا کیا ہے۔ ہم اپنوں کی تصویروں کو لائیک کرتے ہیں، ان کی پوسٹوں پر تبصرے کرتے ہیں، مگر حقیقی زندگی میں ان سے بات کرنے کا وقت نہیں نکالتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ رشتے سطحی ہو گئے ہیں۔ ہم بظاہر ایک دوسرے کے قریب ہیں مگر حقیقت میں ایک دوسرے سے دور جا چکے ہیں۔
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اپنوں میں مقام قائم رکھنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے، ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے بزرگوں کی بات سننی ہوگی، ان کی دعاؤں کو قیمتی سمجھنا ہوگا۔ بچوں کو وقت دینا ہوگا تاکہ وہ ہمارے قریب رہیں۔ دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور خلوص کو اپنی عادت بنانا ہوگا۔ اگر کسی سے اختلاف ہو جائے تو اس کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہوگا، نہ کہ خاموشی یا قطع تعلق سے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر شکر گزاری پیدا کریں۔ اکثر ہم اس بات پر ناراض ہوتے ہیں جو ہمارے پاس نہیں، لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے پاس کتنی بڑی نعمتیں ہیں، زندہ رشتے، اپنوں کا ساتھ اور محبت کے مواقع۔ اگر ہم نے ان نعمتوں کی قدر نہ کی تو یہ ہم سے چھن جائیں گی اور پھر شاید دیر ہو جائے۔
آخر میں، ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اپنوں میں مقام پانے کا راز دولت یا شہرت میں نہیں، بلکہ سچائی، نرمی اور ایثار میں ہے۔ اگر ہم نے اپنے رویے بدل لیے، رشتوں کو وقت دیا اور خلوص کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تو ہم دوبارہ وہی مقام حاصل کر سکتے ہیں جو کبھی ہمارا تھا۔ ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں صرف ایک قصے کی طرح سنیں گی، جس میں اپنوں کا مقام کھو جانے کی کہانی سنائی جاتی ہے۔

