Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Qasim Taj/
  4. Bahir Jaane Ki Zaroorat (2)

Bahir Jaane Ki Zaroorat (2)

باہر جانے کی ضرورت (2)‎‎

بیچ آدھی رات میری اچانک آنکھ کھلی، میں نے سوچا کے رات کو یہ علاقے دیکھنے کے قابل ہوگا، کیونکہ میں ابھی نوجوان ہوں، غیر شادی شدہ ہوں اور ذات برادری کے لحاظ سے راجپوت بھی ہوں تو مجھے لگتا تھا کہ اندھیرےمیں مجھے ڈر نہیں لگتا لیکن اس رات میرے تمام اندازے اور میرے بزرگوں کی دلیری کی داستانیں غلط ثابت ہوئیں۔ میں ہٹ سے باہر نکلا تو اتنا اندھیرا، اتنی خاموشی اور پہاڑوں کی اتنی تنہائی تھی کہ میں چپ چاپ ہٹ کے اندر جا کر پھر لیٹ گیا۔

ہم صبح صبح ناشتے کی غرض سے مظفرآباد پہنچے، مظفر آباد کی فوڈ سٹریٹ میں ایک مشہور ہوٹل "پاکستان ہوٹل" کے نام سے موجود ہے۔ ہم نے وہاں سے باقر خانی بھی کھائی، یہ باقر خانی پنجاب کی باقر خانی اور پٹھانوں کے لچھے دار پرانٹھوں کے درمیان ایک چیز کا نام ہے۔ ہلکی سی نمکین مگر کُلی طور پر انتہائی لذیذ۔ شعیب مالی معاملات میں کافی حسابی کتابی ہے ہر چیز ناپ تول کر، دیکھ بھال کر، مکمل طور پر بھانپ کر خریدتا ہے میرا آپ کو مشورہ ہے اگر آپ کہیں سفر پر جائیں تو پھر آپ شعیب جیسا دوست ضرور لے کر جائیں کیونکہ صرف پیسہ خرچ کرنے سے چیزوں کا مزہ نہیں آتا، صحیح جگہوں پر پیسہ خرچ کرنے سے مزہ آتا ہے۔

ہم لوگ وہاں سے شاردہ کیلے نکلے راستے میں ایل او سی کا بارڈر بھی آتا ہے، ہم وہاں ایک ہوٹل پر رکے، سامنے مقبوضہ کشمیر تھا ہم آزاد کشمیر میں کھڑے تھےدرمیان میں دریائے نیلم تھا سامنے دیکھنے پر مقبوضہ کشمیر میں چیزیں ترتیب سے بنی ہوئی لگ رہی تھیں، گھر مخصوص جگہ پر تھے سڑکیں واضح تھیں۔ ہم راستے میں اپر نیلم بھی تھوڑی دیر روکے اور پھر شاردہ کو رواں دواں ہو لیے۔ ہلکی ہلکی سی ہوا میں خنکی تھی تھوڑی تھوڑی بارش تھی، ساتھ بہتہ دریائے نیلم تھا اور دونوں جانب پہاڑاور سڑک کے درمیان میں ہماری چلتی ہوئی گاڑی۔

پہاڑوں کی بلندی دیکھنے سے وحشت آتی تھی اور دریائے کی گہرائی کو دیکھنے سےخوف۔ اکثر لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ مجھے پہاڑ پکارتے ہیں تو مجھے اس بات کی تب سمجھ نہیں آتی تھی، یہ واقعہ ہی بے تاب روحوں کو اپنی طرف پکارتے ہیں۔ ہم شاردہ پہنچے، ہوٹل لیا اور کھانا کھانے کے لیے بازار چل پڑے ایک دو لوگوں سے پوچھنے پر ایک ہوٹل کا تذکرہ ملا تو وہاں جا پہنچے، ہوٹل کے کھانوں میں"لاہوری ٹچ" تھا ہوٹل کا مالک پاکستان کے مختلف علاقوں میں کام کرچکا تھا اور مسافروں کے ٹیسٹ کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔

ہم نے اس سے تھوڑی دیر گپ بھی لگائی اور کافی شفیق پایا۔ ہم نے وہاں پر خصوصی طور پر کشمیری دال چاول کھائے، چاولوں کو ابال کر ان پر اگر لال لوبیا ڈال دیا جائے تو یہ کشمیری دال چاول بن جاتے ہیں۔ ذائقہ میں نفیس تھے اور ہمارے پنجابی کھانوں سے صحت کے لحاظ سے بہتر۔ ہم کھانے کے بعد واک کرتے کرتے پل کراس کر دریائے کے کنارے جابیٹھے، ہم نے وہاں سگریٹ جلا لی، دیر تک دریا کا شور اور اس کی لہروں کے اندر موجود اسکی خاموشی کو سنتے رہے۔

ہم واپس ہوٹل پر پہنچے تو ہمارے ساتھ والے کمروں میں موجود لوگوں نے دریا کے کنارے بون فائر کا انتظام کیا ہوا تھا ہم بھی وہاں جا کر بیٹھ گئے۔ بون فائر پر موجود ہمارے ہوٹل کا ہمسایہ لاہوڑی تھا اعظم مارکیٹ میں کپڑے کا کا م کرتا تھا اور "ر" کو "ڑ" کے ساتھ تبادلہ کرتا تھا اور ہمیں اپنے ٹوور گائیڈ کی شکائیتیں کر رہا تھا کہ اس نے یہ وعدہ کیا، وہ وعدہ کیا مگر پوری کوئی نہ کیا، خیر سے ہم بھی اس کی ساری باتیں سنتے رہے آخر ہمیں بھی تو آگ سینکنی تھی۔ اگلے دن ہمارا اڑنگ کیل جانے کا ارادہ تھا۔۔

جاری ہے

Check Also

Magar Aik Maa Nahi Manti

By Azhar Hussain Azmi